امریکا بھی ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوگیا اور امریکی طیاروں نے تہران کے 3 جوہری تنصیبات پر حملے کردیے، امریکی طیاروں نے ایران کے فوردو، نطانز اور اصفہان میں بمباری کی ہے جس خطے میں قیام امن کیلیے کی جانے کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ٹروتھ سوشل‘ پر اپنی پوسٹ میں اعلان کیا کہ امریکا نے ایران میں فردو، نطنز اور اصفہان جوہری تنصیبات پر ’انتہائی کامیاب حملہ‘ مکمل کر لیا ہے۔
اپنی پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تمام امریکی طیارے اب ایران کی فضائی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔
امریکی صدر نے لکھا کہ فردو نیوکلیئر سائٹ ہمارا مرکزی ہدف تھا اور اس پر مکمل بمباری کی گئی ہے اور یہ پلانٹ ختم کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام طیارے بحفاظت واپس آ رہے ہیں، ہماری عظیم امریکی فوج کو مبارک ہو، دنیا کی کوئی اور فوج یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتی تھی، اب امن کا وقت آگیا ہے، اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ۔
ٹرمپ نے اپنے پیغام میں کہا ’ایران میں ہماری بہت کامیاب فوجی کارروائی کے حوالے سے قوم سے بات کروں گا، یہ امریکا، اسرائیل اور پوری دنیا کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، ایران کو اب اس جنگ کے خاتمے پر رضامند ہونا ہوگا۔
ادھر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے اسرائیل کو بارہا آگاہ کیا ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے ارادے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق روسی صدر نے اسکائی نیوز عربیہ کو بتایا کہ ’روس اور عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے پاس کبھی بھی ایسا کوئی ثبوت نہیں رہا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تیاری کر رہا ہے، اور ہم نے بارہا اسرائیلی قیادت کو اس سے آگاہ کیا ہے۔
ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ روس ایران کے پرامن جوہری پروگرام کو فروغ دینے میں اس کی حمایت کے لیے تیار ہے، اور ایران کو اس کا حق حاصل ہے۔
اسکا صاف صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ روس سمجھتا ہے کہ امریکہ جو کچھ کررہا ہے یا کیا ہے یہ اسکی بدنیتی ہے جدکے پیچھے اسرائیل کو خطے میں بدمعاش بنانے کی حکمت عملی کارفرما ہے جبکہ امریکی حکام کے مطابق امریکا کے بی ٹو بمبار طیارےا یران کے جوہری مراکز پر حملوں میں استعمال ہوئے۔
ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے فارس نیوز کے مطابق، تہران سے تقریباً 87 میل جنوب میں واقع شہر قم کے رہائشیوں نے شہر کے باہر متعدد دھماکوں کی آوازیں سنیں، فردو نیوکلیئر پلانٹ قم کے قریب ایک پہاڑ کے اندر واقع ہے۔
فارس نیوز نے رپورٹ کیا کہ یہ دھماکے اس وقت سنائی دیے جب فردو میں فضائی دفاعی نظام کو فعال کر دیا گیا۔
دوسری جانب، امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹ رکن سارا جیکبز نے ایران پر صدر ٹرمپ کے فضائی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ایران پر حملے نہ صرف غیر آئینی ہیں، بلکہ یہ ایک خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو امریکا کو ایک اور خطرناک جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے اور ایران کی جانب سے اس حملے پر ردعمل کا شدت سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے
امریکی سینیٹر لنڈسی گراہم نے سوشل میڈیا پر صدر ٹرمپ کے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے فیصلے کو سراہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھا ہوا، یہ بالکل درست فیصلہ تھا، اس حکومت کو اسی کا سامنا کرنا چاہیے، میرے ہم وطنو، ہمارے پاس دنیا کی بہترین فضائیہ ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے۔
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کا جراتمندانہ فیصلہ’ قرار دیا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ اب دنیا ایک زیادہ محفوظ جگہ ہے۔
خیال رہے کہ یوآو گیلنٹ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خود غزہ میں مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو مطلوب ہیں۔
اس سے قبل، رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جمعرات کو اسرائیلی اور امریکی حکام کے درمیان ایک اہم فون کال ہوئی جس میں تناؤ کی صورتحال بھی پیدا ہوگئی تھی، اس فون کال میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع اسرائیل کاتز اور فوجی سربراہ ایال زمیر شامل تھے۔
فون کال کے دوران اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ فردو میں واقع ایران کی جوہری تنصیبات (جو ایک پہاڑ کے اندر گہرائی میں قائم ہیں) کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور امریکا واحد ملک ہے جس کے پاس ایسے ’بنکر بسٹنگ‘ بم ہیں جو اس گہری تنصیب کو تباہ کر سکتے ہیں۔
اسرائیل نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیا گیا 2 ہفتے کا وقت بہت طویل ہے اور فوری کارروائی ضروری ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ پیغام اعلیٰ سطح کی کال کے دوران دیا گیا یا نہیں۔
تاہم، اس کال کے دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اسرائیلی مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو براہ راست مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی اقدامات امریکا کو جنگ میں گھسیٹ سکتے ہیں، اس دوران فون کال پر امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ بھی شریک تھے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی سطح پر کہا تھا کہ اسرائیل کے پاس فردو کو تنہا تباہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ تاہم ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بمباری دوروز قبل امریکہ کے اس اعلان کی نفی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ حملہ دو ہفتے کیلیے موخر کر دیا گیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جوہری تنصیاب پر امریکی حملے کے بعد ایران کا پہلا باضابطہ سرکاری ردعمل جاری کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ امریکی حملہ افسوسناک، اشتعال انگیز اور دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔
جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد ایکس پر جاری بیان میں عباس عراقچی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن امریکا نے ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، اور این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے) کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج صبح کے واقعات نہایت افسوسناک، اشتعال انگیز اور دور رس نتائج کے حامل ہیں، اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کو اس انتہائی خطرناک، قانون شکن اور مجرمانہ طرزِ عمل پر شدید تشویش ہونی چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہاکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی ان شقوں کے مطابق جو اپنے دفاع میں جائز اقدام کی اجازت دیتی ہیں، ایران اپنی خودمختاری، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام ممکنہ آپشنز محفوظ رکھتا ہے۔
دریں اثنا، ایران کی وزارت خارجہ نے اپنی جوہری تنصیبات پر امریکا کے حالیہ حملوں کو بین الاقوامی قانون کی سنگین اور بے مثال خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے ذریعے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا یہ نہ بھولے کہ یہ امریکا ہی تھا جس نے ایک سفارتی عمل کے دوران اسرائیل کی جارحانہ کارروائی کی حمایت کر کے سفارت کاری سے غداری کی، اور اب ایران کے خلاف ایک خطرناک جنگ کا آغاز کیا ہے۔
امریکہ نے ایسے موقع پر اشتعال انگیزی کی ہے جب جنیوا میں ایران کے یورپی ممالک سے مذاکرات ہورہے تھے ۔ شایدامریکی سٹرائیکس ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلیے ہی کی گئی ہیں تاکہ اسرائیل کی ہارتی جنگ کو جیت میں بدلا جاسکے امریکہ کے اس عمل سے خطے میں امن کیلیے کی جانے والی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔