غم کی کوکھ سے جنم لیتی روشنی

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

8

کچھ خبریں مجھے ہمیشہ بڑی جلد متوجہ کر لیتی ہیں ۔ میرے نزدیک جیو نیوز اور سوشل میڈیا پر یہ چونکا دینے والی یہ خبر بہت بڑی ہے جو میرے ایک عزیز  دوست فاروق عظیم  صاحب نے سمہ سٹہ سے آج صبح وائرل کی تو پہلے تو یقین سا نہیں آیا کہ پاکستان اور وہ  بھی خصوصی خیبر پختون خواہ جیسے صوبے میں اتنا عظیم کام ہو چکا ہے ؟لیکن جب ان سے تصدیق کی تو پتہ چلا واقعی ایسا واقعہ ہوا ہے ۔خبر کچھ یوں ہے کہ مردان کے علاقے رستم بازار کا رہائشی نورداد اپنے گھرکے قریب آٹاچکی چلا کر اہل خانہ کا پیٹ پالتاہے۔31 مئی کو اس کے لاڈلے بیٹے اور نویں جماعت کے طالب علم 14 سالہ جواد خان کوایک گاڑی نے اس وقت ٹکر مارکر شدید زخمی کردیا جب وہ پڑھنے اسکول جا رہا تھا۔ مختلف اسپتالوں کے چکر لگانے کے بعد والدین کی تمام امیدیں دم توڑگئیں اوربیٹا وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانسیں لینے لگا، یہی وہ وقت تھا جب جواد کے باپ نے ضرورت مند مریضوں کا خیال کرتے ہوئے بیٹے کے اعضا ء عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا اور  تمام تر قانونی کارروائی مکمل کر لینے کے بعد بیٹےکی دونوں آنکھیں، جگر اور گردے عطیہ کردیے، جس سے 5 اجنبی انسانوں کو نئی زندگی مل گئی۔ مردان کے چارجون کو وفات پانے والے اس معصوم فرشتے جواد کی سات جون  کو  تدفین کردی گئی ہے، جواد کے دیگر گھر والے بھی اعضاء عطیہ کیے جانے پر مطمئن ہیں۔ جواد کے دادا کا کہنا ہےکہ ان کا پوتا تو روڈ حادثے میں چل بسا لیکن رستم بازار میں بائی پاس روڈ بنایا جائے تاکہ مزید حادثات سے بچا جاسکے۔ محلہ دار اورپڑوسی بھی جواد کے اہل خانہ کے اس فیصلے پرفخر محسوس کر رہے ہیں۔جواد مرحوم کے اہل خانہ اس صدقہ جاریہ پر خراج تحسین کے مستحق ہیں  اور شاید اس لحاظ سے خوش قسمت بھی ہیں کہ ان کے ایک بیٹے کی زندگی نے پانچ افراد کی زندگی بچا کر خود کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کر لیا ہے ۔گو یہ واقعہ ایک ایسا المیہ ہے جسے الفاظ میں سمیٹنا مشکل ہے مگر اس میں پوشیدہ انسانیت کا پیغام ہر دل پر نقش ہو جانا چاہیے ۔

کہتے ہیں کہ دکھ اگر مقدس ہو جاۓ تو وہ عبادت بن جاتا ہے اور عبادت اگر انسانوں کے کام آجاۓ تو وہی روحانیت کی معراج ٹھہرتی ہے ۔مردان کے علاقے رستم بازار میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ انسانیت ،قربانی اور ہمدردی کا ایسا نقش چھوڑ گیا ہے جسے آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی اور جسکی  ہمیشہ مثال دی جاتی رہے گی ۔ ایک معصوم بچہ جو ابھی دنیا کو دیکھنے ،محسوس کرنے اور جینے کی مکمل لذت سے بھی آشنا نہ ہو پایا تھا اچانک ایک  ٹریفک حادثے شکار ہوکر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ۔لیکن اس کے والدین نے اس کی خاموشی کو ایک نئی صدا میں ڈھال دیا ۔انہوں نے اپنے لخت جگر کے تمام اعضاء عطیہ کردیے تاکہ کئی اور زندگیاں بچائی جا سکیں ۔یہ فقط ایک عطیہ نہیں تھا ۔یہ اس ماں کے آنسوں کی قیمت پر ملنے والی بینائی تھی جو آج بھی کسی کے لیے نور بکھیر رہی ہے ۔یہ باپ کے کلیجے سے ٹپکتا خون تھا جو کسی اور کی رگوں  میں زندگی بن کر بہنے لگا ہے ۔یہ ایک ماں کی گود کا خالی پن تھا جس نے کئی گھروں کو پھر سے آباد کر دیا ہے ۔مردان کی مٹی نے اس مرتبہ صرف  ایک جنازہ نہیں اٹھایا اس نے اپنے کندھوں پر انسانیت کی ایک عظیم داستان بھی اٹھائی ہے ۔مردان کی سرزمیں کو ایسے نوعمر بچے کو خود میں سمونے کا اعزاز ہمیشہ رہے گا ۔ کہتے ہیں کہ جب ایک ماں کی گود خالی ہوتی ہے تو کائنات کا سب سے بڑا دکھ جنم لیتا ہے ۔مگر سلام ہے ان والدین کو جنہوں  نے اس دکھ کو خدمت خلق کا ذریعہ بنا لیا  اور صبر کا دامن تھام کر اتنا بڑا فیصلہ کیا جو انسانیت کے ماتھے کا جھومر بن گیا ہے ۔یہ فیصلہ محض ایک طبی عمل نہیں تھا یہ ایک عہد تھا کہ ہمارا دکھ کسی اور کی امید اور زندگی بنے گا ۔ہماری محرومی کسی اور کی روشنی بنے گی ۔یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موت کے بعد بھی زندگی بانٹی جاسکتی ہے ۔اگر دل میں درد اور ذہن میں شعور ہو تو غم کے اندھیرے میں امید کا چراغ روشن کیا جاسکتا ہے ۔بےشک ایسے لوگ معاشرے کے اصل ہیرو ہوتے ہیں جو دکھ کی گھڑی میں بھی دوسروں کے لیے مسکراہٹ اور خوشیوں کا سامان کرتے ہیں ۔یہی لوگ انسانیت کے چراغ ہوتے ہیں  جو اپنے ایک بچے کے اعضا کی قربانی سے کئی زندگیاں روشن کر دیتے ہیں ۔اس سے قبل بھی خون اور مختلف انسانی اعضاکا عطیہ دینے اور پیوند کاری  کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں سے بیشتر قریبی رشتے داروں اور خونی رشتوں میں نظر آتی ہیں لیکن یہ شاید پہلی مثال ہوگی کہ ایک ہی فرد نے پانچ مختلف لوگوں کی زندگیوں کو جلا بخشی ہے جن سے اس کا کوئی رشتہ نہ تھا ۔

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں اعضا عطیہ کرنے پر تذبذب ،لاعلمی اور مذہبی شکوک غالب رہتے ہیں یہ فیصلہ نہایت جرات مندانہ اور باشعور ہونے کی دلیل تھا ۔ان والدین نے خاموشی سے قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ زندگی دینے کے لیے زندگی دینا ہی انسانیت کا اعلیٰ مقام ہوتا ہے جو دکھ بانٹتے ہیں وہی اصل فاتح ہوتے ہیں ۔اگر ایک ماں مردان میں اپنے بچے کی آنکھیں عطیہ کرسکتی ہے تو ہم  اس بارے میں اپنی آنکھیں کھولنے سے قاصر کیوں ہیں ؟ جب ہم زندگی میں اپنا خون عطیہ کرنے سے نہیں گھبراتے تو پھر اس معاملہ پر تذبذب کا شکار   کیوں ؟ ہمیں معاشرتی آگاہی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔اس صدقہ جاریہ کی اہمیت سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت بنتی جارہی ہے ۔

یہ ریاست اور اداروں کے علاوہ ہمارا معاشرتی فرض بھی ہے کہ ایسے واقعات کو مثال بناکر عوام میں اعضا عطیہ  کرنے سے متعلق آگاہی فراہم کریں ۔ انسانی اعضاکے عطیہ کی روایت ایک ایساعمل ہے جس میں کوئی شخص اپنے اعضا یا ٹشوز  اور خون دوسرے ضرورت مند افراد کو عطیہ کر تا ہے ۔یہ وہ رضاکارانہ طور پر زندگی میں بھی کرسکتا ہے اور مرنے کے بعد وصیت بھی کرسکتا ہے ۔اس وقت سری لنکا پوری دنیا کو آنکھیں عطیہ کرنے والا سب سے بڑا ملک  بن چکا ہے ۔اسی طرح چین انسانی اعضاء کے عطیات دینے والا  پہلا  ایشیائی ملک بن گیا ہے ۔جہاں اعضا عطیہ کرنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے بھی تجاوزکر چکی ہے ۔چین میں اعضا کی پیوندکاری  کا اجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔اس طرح ۲۰۱۵ء کے بعد اعضا عطیہ کرنا ملک میں اعضاء کی پیوندکاری کا واحد قانونی ذریعہ بن گیا ہے ۔جسے ۲۰۲۴ء میں نافذالعمل  کردیا گیا ہے ۔جدید دور میں پاکستان میں بھی گردوں ،جگر ،لبلبہ اور آنکھوں کی پیوندکاری ہو رہی ہے۔صرف لوگ اپنے پیاروں کو اپنے اعضا  کا عطیہ دیکر پیوند کاری کراتے ہیں یا پھر رضاکارانہ طور پر عطیہ شدہ اعضای پیوند کاری کی اجازت ہے ۔جبکہ سری لنکا سے عطیے میں آنے والی آنکھوں کی پیوند کاری پاکستان میں بڑے عرصے سے کی جا رہی ہے ۔پاکستان میں اعضاکی پیوندکاری کے جامع نظام اور قوانین اور عملداری کی آج بھی اشد ضرورت ہے ۔تاکہ ان قیمتی اعضاکی غیر قانونی  اور ناجائز خرید وفروخت کسی صورت بھی ممکن نہ ہو سکے ۔چین اور ایران نے بعد ازمرگ اعضاعطیہ کرنے کا جامع نظام وضع کر رکھا ہے لیکن پاکستان ،بنگلہ دیش اور بھارت اس سلسلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں ۔ایک تحقیق کے مطابق  پاکستان میں بھی اعضاء کی پیوندکاری  کی ضرورت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔اگر بعد از مرگ  اعضاعطیہ کرنے کا موثر نظام وضع نہ کیا گیا تو سالانہ ہزاروں زندگیوں کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں ۔ہمارا  یہ انسانی جذبہ بےشمار  ضرورت مند  لوگوں کو  ایک نئی زندگی کی رمق دے سکتا ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.