مریم نواز اور نوجوان نسل: ایک نئی سیاسی امید 

تحریر :  ڈاکٹر سعدیہ بشیر

5

پاکستانی  سیاست میں ماضی کی روایات واضح تبدیلی کی طرف گامزن ہیں اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دوسری طرف جامد بیانیے نئے پیراہن اور نئی لہروں کے دوش پر ابھر رہے ہیں ۔یہ بات خوش کن ہےکہ   مریم نواز کا نام ایک تازہ ،با اعتماد اور عوامی رنگ کی علامت کے طور پر  سرِفہرست نظر آتا ہے۔  خاص طور پر نوجوان نسل کی توجہ اور دلچسپی جس انداز میں مریم نواز کی جانب بڑھی ہے،  یہ ان کی نوجوان نسل میں مقبولیت کا آغاز اور پاکستانی سیاست کے بدلتے رجحانات کا پیش خیمہ ہے۔ مریم نواز  ایک فعال، بااعتماد اور مؤثر سیاسی رہنما کے طور پر خود کو منوا چکی ہیں۔سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہر بات لمحوں میں وائرل ہوتی ہے،۔مریم نواز کی  عوامی تقاریر، جلسوں میں شرکت، اور سوشل میڈیا پر سرگرمیاں اُن کے اس نئے انداز سیاست کا حصہ ہے جو روایتی سیاست سے مختلف نظر آتا ہے۔جدید دور میں دیگر عوامل کی طرح  ڈیجیٹل سیاست کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے ۔مریم نواز نے بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو سیاسی مکالمے کا مرکز بنایا ہے۔ ان کے خطابات کے کلپس، جذباتی تقاریر، اور سیاسی بیانات نوجوانوں میں تیزی سے وائرل ہوتے ہیں۔ جہاں روایتی سیاستدان نوجوانوں سے رابطے میں کمزور دکھائی دیتے ہیں، وہیں وہ نوجوانوں سے مخاطب ہیں اور ان کے مسائل سنتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا و طالبات اُن کو دیکھنے اور سننے میں دلچسپی لیتے ہیں اور انہیں “اپنا نمائندہ” سمجھنے لگے  ہیں۔ عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ مریم نواز نوجوان نسل کی پسندیدہ لیڈر بن گئی ہیں ۔ الیکٹرک بائیکس ، سکالر شپ اور لیپ ٹاپ تقسیم کی تقریبات میں اس کا عملی مشاہدہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔وزیر اعلی مریم نواز نے باتوں سے نہیں ،عملی اقدامات سے لوگوں کے دل جیتے ہیں ۔ہم نے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ سے ایک سروے کے دوران مختلف سوالات کے ذریعہ یہ نتیجہ نکالا کی یہ بات کافی  حد تک درست ہے ۔ مریم نواز نے حقیقی آزادی کے مقابل” ووٹ کو عزت دو۔” کا بیانیہ اپنایا۔ یہ نعرہ حقیقی جمہوریت کا نمائندہ اور نوجوان نسل کے اس احساس کی ترجمانی ہے جو حقیقی جمہوریت، شفاف انتخابات اور سول سپریمیسی کے خواہاں ہیں۔ وہ خود ایک مضبوط عورت کے طور پر ابھری ہیں، جو نوجوان خواتین کے لیے ایک رول ماڈل بن چکی ہیں۔تاہم،  پاکستان میں رائے کا تنوع موجود ہے، اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مریم نواز ایک نئی سیاسی زبان، ایک نیا اسلوب، اور ایک نیا وژن لے کر نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔مریم نواز کی نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت میں ایک اہم کردار اُن بااثر اور باوقار شخصیات کا بھی ہے جو عملی دنیا میں نوجوانوں کے مسائل کو قریب سے سمجھتے ہیں۔ شاہد فرید کا نام اس ضمن میں نمایاں ہے۔شاہد فرید اس وقت پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF) کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔جو اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر مبنی تعلیمی ادارہ ہے اور حکومتی معاونت سے  لاکھوں بچوں کو معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔شاہد فرید

تعلیم، گورننس اور نوجوان قیادت کے حوالے سے ایک فکری رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت ایک وژنری منتظم اور اصلاحاتی سوچ رکھنے والے افسر کے طور پر ہے، جو نہ صرف نظام کو سمجھتے ہیں بلکہ اسے بہتر بنانے کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں۔مریم نواز کے سیاسی وژن پر ان کا اعتماد قابلِ ذکر ہے۔ شاہد فرید مختلف فورمز پر  اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مریم نواز کی قیادت نئی نسل کو سیاسی عمل میں نہ صرف شریک کر رہی ہے بلکہ انہیں فیصلہ سازی کی سطح تک لے جانے کا حوصلہ بھی دے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے:”مریم نواز وہ لیڈر ہیں جو نوجوانوں سے بات نہیں کرتیں ، بلکہ اُنہیں سننا بھی جانتی ہیں، اور یہی قیادت کی اصل خوبی ہے۔”وہ نوجوانوں کو نظام کا حصہ بنانے کی بات کرتی ہیں، جو آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔”ان کی رائے نہ صرف تعلیمی اداروں میں مریم نواز کی حمایت کو تقویت دیتی ہے بلکہ طلبہ کو سیاسی شعور کی طرف راغب کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ بعض حلقوں میں شاہد فرید کو “نوجوانوں کا فکری معلم” بھی کہا جاتا ہے ۔جو صرف کتابی علم نہیں دیتا، بلکہ نوجوان ذہنوں میں سوچنے، سوال کرنے اور سچائی تلاش کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل اب محض تماشائی نہیں بلکہ سیاسی منظرنامے کا متحرک حصہ بن چکی ہے۔ مریم نواز اس تبدیلی کی ایک علامت ہیں۔ چاہے ان کے نظریات سے اتفاق کیا جائے یا نہیں، یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ نوجوانوں کی سیاسی شعور و بیداری کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہیں۔تاہم مریم نواز کی سیاست پر تنقید بھی کم نہیں۔  نوجوان نسل، جو میرٹ، شفافیت اور ادارہ جاتی اصلاحات کی خواہاں ہے، وہ صرف لب و لہجے سے مطمئن نہیں ہوتی، وہ نتائج بھی چاہتی ہے۔یہاں یہ بھی دیکھنا ہے کہ مریم نواز عملی سطح پر نوجوانوں کے لیے ملازمتوں، تعلیم، اور جدت طرازی اور موجودہ مسائل پر کتنی سنجیدہ حکمت عملی سامنے لاتی ہیں۔ان زمینی حقائق سے نظر نہیں چرائی جا سکتی کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اب بھی عمران خان کے بیانیے سے جڑی ہوئی ہے، جو تبدیلی، کرپشن کے خاتمے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سیاسی دھارے میں لانے کی بات کرتے ہیں۔ مریم نواز کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس مقابل بیانیے کو نہ صرف شکست دیں بلکہ اپنا الگ اور دیرپا وژن بھی پیش کریں۔مریم نواز کی نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت بلا شبہ پاکستانی سیاست کے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ لیکن یہ سفر ابھی ادھورا ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف نظریاتی اور بیانیاتی سطح پر ہی نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی خود کو ثابت کریں۔

 رستے ہوئے زخموں کا ہو کچھ اور مداوا

یہ حرف تسلی کوئی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.