‏‏ ماحولیات کا عالمی دن۔ پلاسٹک  سے  نجات  کا  عہد ۔۔۔ تتلیوں  جگنو اور  پرندوں  کو  واپس  کا  عزم  

تحریر : آئینوں کے شہر میں... شاہنواز خان

13

یہ  زیادہ  پرانی  بات  نہیں  جب  پاکستان بہت ہی خوبصورت تھا  جہاں دن  کو تتلیاں  آڑتی  نظر  آتی  تھیں  اوررات  کو   جگنوچمکتے  تھے درختوں  کی  بہار  ہوتی  تھی  جن  پر  پرندے  چہچاتے  تھے  بارشیں  معمول  سے  ہوتی  تھیں  اور اس وقت ہر شے خوبصورت لگتی تھی۔ شہر، قصبے، گاؤں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے اور کھیت درختوں  کی  وجہ  سے  سب  کچھ حسین تھا۔ صاف ستھرا ماحول، موسم اپنے وقت پر بدلتے  تھے، ۔ سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق چلتا تھا۔

اس لیے  اس  عرض  پاک  پر  انسان  خوش  اور  صحٹ  مند  رہتے  تھے لیکن اب پہلے جیسا ماحول نہیں رہا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  سب  بدل  گیا  ماہر  ‏ماحولیات  ڈاکٹر  یونس  کہتے  ہیں  کہ  ہمیں  اپنی  نسلوں  کی  بقا  کے  لیے  اپنے  رویے  بدلنے  ہونگے  تب  یہ  زمین  ہمارے  رہنے  کے  قابل  ہوگی  ،اس  وقت  یہ  لگتا  ہے  کہ اب سب سے زیادہ آلودگی پاکستان میں ہی پیدا ہو گئی ہے۔

عالمی سطح پر ہر سال 5 جون کو یومِ ماحولیات  کے  طور  پر   منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد آلودگی کے خاتمے سے متعلق عوام الناس میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا اور ماحول کو جینے کے قابل بنانے کے لئے جدوجہد تیز کرنا ہے۔

   ۱۹۷۴  سے ماحولیات کا عالمی دن منانے کا آغاز ہوا ۔ 1987 میں اقوام عالم نے یہ فیصلہ کیا کہ ماحولیات کا عالمی دن منانے کی میزبانی ہر سال مختلف ملک کو دی جائے گی۔۲۰۲۱  میں  اس  کی  میزبانی  کا  اعزاز  پاکستان  حاصل  ہوا  تھا   اس سال اس  دن   کا میزبان  کوریا ہے

اس  سال  ماحول  کے  عالمی   دن کا موضوع  پلاسٹک آلودگی کو ختم کرنا ہے

ہمارا  ملک  اس  وقت  ماحولیاتی آلودگی  کے  شکار  ملکوں  میں  سر  فہرست  ہے   اور  پاکستان  کا  شمار سب سے زیادہ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ممالک میں  ہے  پاکستان انتہائی گرمی، سیلاب، طویل خشک سالی اور گھٹن والی فضائی آلودگی کو برداشتکررہا  ہے

فضا میں کاربن گیسسز کا بڑھتا دباؤ، جنگلات کی کٹائی، صنعتی سرگرمیوں کا بڑھتے رہنا، فوسل فیول کا استعمال۔پلاسٹک  کی  وجہ  سے  ہونے  والی  آلودگی اس کے علاوہ میں فضائی آلودگی میں غیر معمولی اضافہ ایک اہم وجہ ہے،

یورپی ماہرین موسمیات نے خبردار کیا کہ اگر اسی طرح گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا تو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ناممکن ہو جائے گا۔ گرمی کی شدت میں اضافے سے سیلاب، خشک سالی اور دیگر مسائل میں اضافہ متوقع ہے۔

سال 2024 دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال رہا جس میں گرمی کی حدت نے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ماہرین موسمیات کی تحقیق کے مطابق گرمی کی شدت میں اضافہ ڈیڑھ فیصد حد سے زائد ہے۔ آلودگی  کو  بڑھانے میں  جہاں  دیگر  عوامل  کا  ہاتھ  ہے  وہیں  پاکستان  کی فضا  کو  آلودہ  کرنے  پلاسٹک  کا   اہم  کردار  ہے  جس  کی  وجہ  سے  ہمارا  سوریج  کا  پورا  نظام  برباد  ہوگیا پانی  آلودہ  ہورہا  ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں 55 ارب شاپنگ بیگز روزانہ استعمال ہو رہے ہیں۔ جس میں سالانہ 15 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او سمیت کچھ ممالک کی تنظیموں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا کا ہر بالغ شخص سالانہ 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا  ہے  ۔دنیا کو پلاسٹک کی آلودگی کو روکنا ہوگا جو انسانوں  کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ ملکوں کو عالمی سطح پر ری سائیکلنگ انفرا اسٹرکچر اور ویسٹ مینیجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانا چاہیے، اس کے لیے تعاون کو بڑھانا چاہیے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پلاسٹک بیگز بنانے والی رجسٹرڈ فیکٹریوں کی تعداد 18ہزار سے زیادہ ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ چھوٹے بڑے شاپنگ بیگز کی یومیہ پیداوار 500 کلوگرام ہے۔ اس کے علاوہ سیوریج کا نظام پلاسٹک بیگز جمع ہونے سے چوک ہوجاتا ہے۔ہم  نے  پلاسٹک  کو  اپنی  ضرورت  بنا  لیا  ہے یہی وجہ ہے کہ پابندی کے باوجود ابھی تک اسے ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔گزشتہ  سال  ۵  جون  کو  حکومت  پنجاب  نے  پلاسٹک  کو  بین  کردیا  تھا  لیکن  ابھی  تک  عمل  نہیں  ہوسکا۔

 برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈزکی ایک ریسرچ سے ظاہر ہوا کہ پاکستان دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ملکوں میں شامل ہے اور اس کا سب سے بڑا صنعتی شہرکراچی پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے چار شہروں میں شامل ہے۔

لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹنوں کے حساب سے پیدا ہونے والا پلاسٹک کا کچرا اس ماحولیاتی آلودگی کی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ 60 کی دہائی سے عام ہونے والا پلاسٹک بڑھتے بڑھتے 300 ملین تک جا پہنچا ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس کا استعمال ہر سال 3 گنا اضافے کے ساتھ بڑھ رہا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق ہمارے ہاں ہر سال 7 سے 9 فیصد کے حساب سے پلاسٹک کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق ایک بار استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والے پلاسٹک کے تھیلوں یا شاپرزکا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کے نتیجے میں پلاسٹک کے کچرے کا شہرکے ڈرینیج سسٹم میں شامل ہونا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تین اعشاریہ نو ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے، پاکستان میں پلاسٹک کے ماحولیات اور صحت پر سنگین اثرات ہو رہے ہیں۔ ملک میں ہر سال لگ بھگ تین اعشاریہ نو ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے 70 فیصد کو مس مینیج کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ کچرا لینڈ فلز میں، ڈمپس اور ندی نالوں میں جمع ہو جاتا ہے اور آخرکار سمندر میں جا گرتا ہے یا اس کے ساحلوں پر بکھرا نظر آتا ہے۔

 پاکستان ایک اہم موڑ پرکھڑا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کے استعمال کے چیلنج سے نبرد آزما ہے۔موسموں کی تبدیلی کے ساتھ فضا میں زہر گھولنے والے ذرات نے پاکستان کے صوبہ پنجاب کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہوا ہے۔ باغوں کا شہر کہلانے والا پنجاب ہر سال سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی شدید آلودگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے، جس کے باعث سانس کے امراض میں مسلسل ہونے والا اضافہ انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کر رہا۔ پلاسٹک اپنے زہریلے پن اور غیر بایوڈیگریڈیبلٹی کی وجہ سے ماحول کے لیے شدید خطرہ ہے۔

سادہ پلاسٹک بیگز کو خراب ہونے میں 500 سال لگ سکتے ہیں، جبکہ پلاسٹک کی بوتلیں 300 سال تک برقرار رہ سکتی ہیں۔ صرف پاکستان میں ہر سال 55 بلین پلاسٹک کے تھیلے استعمال کیے جاتے ہیں، جس میں سالانہ 15 فیصد اضافہ متوقع ہے۔صورتحال کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے،

پلاسٹک کے بحران کی شدت اور عجلت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایسے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن کو صارفین کے رویے اور رجحانات کو دیکھتے ہوئے آسانی سے بڑھایا جا سکے۔ دنیا بھر میں ہر منٹ میں 10 لاکھ پلاسٹک کی بوتلیں خریدی جاتی ہیں جن کی اکثریت کوڑے کرکٹ میں جمع ہو جاتی ہے۔ ان کو یا تو کارٹن یا دوبارہ قابل استعمال پیکیجنگ سے تبدیل کرنے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ خاص طور پرکارٹن کے ذریعے ہم زیادہ آسانی سے ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جہاں ہماری دکانوں اور گھروں میں پلاسٹک کی بوتلیں نایاب ہو جائیں  تب  ہم  اس  سے  نجات  حاصل  کرسکتے  ہیں۔اسی  ماحولیاتی  آلودگی  کے  جن  کو  بوتل  میں  بند  کرنے  کے  لیے  ہمیں  کچھ  ہنگاہی  اقدمات  کرنے  ہونگے۔ہنگامی  بنیادوں  پر  درخت  لگانا  ہونگے  جس  کا  حکم  ہمارا  مذپب  شجر کاری  کا    ہمیں حکم   دیتا  ہے ۔ آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ نے شجر کاری کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے ”اگر قیامت قائم ہو جائے، اور تم میں سے کسی شخص کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو، اور اسے قیامت قائم ہونے سے پہلے پودا لگانے کی مہلت مل جائے تو وہ اس پودے کو لگا دے

 اس  کے  علاوہ  سڑکوں اور راستوں پر  ایسی  پبلک ٹرانسپورٹ کو  عام  کیا جائے۔ جن سے دھواں نہیں نکلتا ہو اور وہ ماحول کو بھی آلود نہ کر سکیں۔اندرونی شہروں کے سفر کے لیے ڈبل ڈیکر بسوں کا استعمال کیا جانا چاہیئے کہ گاڑیوں کی تعداد میں کچھ کمی ہو سکے اور سڑکوں پر رش بھی کم ہو جائے گا۔اسکولوں اور کالجوں،یونیورسٹیوں کو بسیں مہیا کی جائیں تا کہ طالب علم گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی بجائے بسوں میں سفر کریں۔موٹر سائیکل کی تعداد کم کی جائے اور کیونکہ موٹر سائیکل کے چلانے سے ہی فضا سب سے زیادہ آلودہ ہوتی ہے اسلیئے سائیکل کو رواج دیا جائے۔

سائیکل سواروں کے لیے سڑکوں پر ٹریک بنائے جائیں۔ کم قیمت لیکن عمدہ سائیکلیں لوگوں میں تقسیم کی جائیں ملکی سائنسدانوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے ترغیب دی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات دیے جائیں۔ تاکہ وہ ایسے سامان ایجاد کریں جو آلودگی روکنے میں معاون ثابت ہوں۔دور کے سفر کے لیے ریل کے سفر کو عام کیا جائے اور اسے جدید اور آرام دہ بنایا جائے۔ دنیا بھر میں اس سفر کوانتہائی محفوظ سمجھا جاتا ہے اور یہ آلودگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس محفوظ سواری کو عام کرنے کے لیے بہت لاپروائی برتی۔

موجودہ حکومت نے اس طرف کسی حد تک توجہ دی  محکمہ  ماحولیات  پنجاب  کو  موثر  بنایا  گیا  ہے  انہیں  جدید  آلات سے آراستہ گاڑیوں  سے  لیس  کیا  گیا  ہے  سپیشل  فورس  تشکیل  دی  گی  ہے  ۔پارلیمانی  سیکٹری  محترمہ  کنول  لیاقت  اور  صوبایء  وزیر  مریم  اورنگزیب  اپنی  ٹیم  کے  ساتھ  پنجاب  میں  آلودگی  کے  خاتمے  کی  جدوجہد  میں  مصروف  ہیں۔

    لیکن اب بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔آلودگی کو کم کرنے کے لیے نچلی سطح تک لوگوں میں آگاہی مہم شروع کی جائے۔ تاکہ لوگ اس مسئلے کو سمجھ سکیں اور آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.