حکومت مخالف متوقع ملک گیر تحریک

تحریر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com

7

صدا بصحرا
رفیع صحرائی
حکومت مخالف متوقع ملک گیر تحریک
۔۔،۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں عدلیہ اور ایگزیکٹو سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ ہمارے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ انہوں نے کہا کہ ملک گیر تحریک کو بانی پی ٹی آئی جیل سے خود لیڈ کریں گے تاہم احتجاجی تحریک کا مرکز اسلام آباد نہیں ہو گا۔ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ احتجاجی تحریک کا پلان بنانے کی ذمہ داری بانی نے انہیں سونپی ہے جسے وہ پورا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان احتجاجی تحریک کے لیے بہت سنجیدہ ہیں۔ اب جو تحریک چلے گی اس سے پہلے ایسی تحریک کبھی نہیں چلی ہو گی۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ انہیں اپنی لیڈرشپ پر اعتماد ہے لیکن اس تحریک کی قیادت وہ خود جیل سے کریں گے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کی متوقع احتجاجی تحریک کا تعلق ہے تو اس کا اسے آئینی حق حاصل ہے اور اس سے پہلے بھی بارہا اس نے یہ حق استعمال کیا ہے۔ بعض مواقع پر تو یہ حق اپنی حدود سے بھی تجاوز اختیار کر کے استعمال کیا گیا جس کا خمیازہ بانی پی ٹی آئی، کچھ لیڈر صاحبان اور ورکرز بھگت بھی رہے ہیں۔ اس کے لیے 9 مئی کے بعد 26 نومبر کو اسلام آباد پر مسلح چڑھائی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کی ملک گیر احتجاجی تحریک کے اعلان سے اس بات کی تصدیق تو ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف مذاکرات کے لیے ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما نہیں گیا۔ علیمہ خان نے مئی کے آخری عشرے میں بانی پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار اور واشگاف الفاظ میں کچھ لو اور کچھ دو کی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر ان کے بیانات اور خواہش کو پذیرائی نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عمران خان کے پاس دینے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف کا موقف ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود ملکی معیشت کا پہیہ پٹڑی پر تیزی سے رواں دواں کر دیا گیا ہے۔ اوورسیز میں عمران خان کی حمایت اور مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ ملک کے اندر تحریکِ انصاف کمزور ہو چکی ہے۔ ہندوستان سے جنگ جیت کر حکومت اور فوج کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کمزور عمران خان بارگیننگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
جیل میں بیٹھ کر احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے کے ارادے سے دو باتوں کا واضح طور پر پتا چل رہا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے یوٹیوبرز کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے جن میں وہ بار بار عمران خان کے عید سے قبل جیل سے باہر آنے کی خبریں تواتر کے ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر عمران خان کو اپنی رہائی کا یقین ہوتا تو وہ جیل میں بیٹھ کر ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان نہ کرتے۔ وہ یہ کام جیل سے باہر آ کر زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے تھے جبکہ اس تحریک کا بظاہر تو مقصد ہی عمران خان کی رہائی نظر آ رہا ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہو رہی ہے کہ عمران خان کو اپنی لیڈرشپ پر اعتماد نہیں رہا۔ اگر انہیں ان پر اعتماد ہوتا تو تحریک کی قیادت وہ اپنی لیڈرشپ کو سونپتے مگر باقی لیڈرشپ کو چھوڑیں انہوں نے اپنی بہنوں پر بھی اس سلسلے میں اعتماد نہیں کیا۔ شاید بعض تجزیہ نگاروں کی طرح عمران خان کو بھی احساس ہو گیا ہو کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو آزاد عمران خان کی نسبت قیدی عمران خان زیادہ وارا کھاتا ہے۔ اس سوچ کی وجہ لیڈرشپ کا رویہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے خصوصاً پنجاب میں ایم این ایز، ایم پی ایز، ٹکٹ ہولڈرز اور عہدیداران احتجاج کی کسی کال کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ وہ اپنے ورکرز کو لے کر احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرنے کی بجائے پختونخوا میں جا کر چھپ جاتے ہیں یہاں تک کہ مرکزی احتجاج میں خود بھی شریک نہیں ہوتے۔ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کو سب نے میڈیا پر دیکھا تھا جو احتجاج کے روز اکیلے ہی لاہور کی سڑکوں پر گاڑی لیے گھوم رہے تھے۔ سیکریٹری اطلاعات وقاص اکرم شیخ کہیں زیرِ زمین رہ کر بیانات جاری کر کے ورکرز کو احتجاج کی کال دے رہے تھے۔ اب احتجاجی تحریک کو ملک بھر میں شروع کرنے سے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والے چہرے بھی سامنے آ جائیں گے۔ اس ٹحریک کے ذریعے صوبے،ضلع، تحصیل اور شہروں کی مقامی پی ٹی آئی قیادت، ایم پی ایز، ایم این ایز اور ٹکٹ ہولڈرز کا امتحان بھی ہو گا۔ دودھ پینے والوں اور خون دینے والوں کی الگ الگ شناخت ہو سکے گی۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی قیادت اور ورکرز کے لیے مشکل وقت آنے والا ہے۔ علی ظفر کا کہنا ہے کہ اب جو تحریک چلے گی اس سے پہلے ایسی تحریک کبھی نہیں چلے ہو گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی موجودہ حالات میں ایسی کوئی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ اس سے پہلے بھی متعدد بار کوشش کی گئی ہے لیکن آپ اگر علی امین گنڈاپور کو نکال دیں تو تمام کوششوں کے دوران پی ٹی آئی لیڈرشپ نے سخت مایوس کیا ہے۔ ایسا بھی ہو چکا ہے کہ کسی مشکل سے بچچنے کے لیے پی ٹی آئی لیڈرشپ نے پولیس کو بلوا کر فرمائشی گرفتاریاں بھی دی ہیں۔ مجھے لگتا ہے پی ٹی آئی کا ایک مضبوط دھڑا عمران خان کو اس ملک گیر احتجاجی تحریک کو شروع کرنے سے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.