ہماری تربیتی روایت میں ہمیشہ انفرادی کارکردگی اور ذاتی کامیابی کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ بچوں کو کم عمری سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ کلاس میں اول آئیں، ٹیسٹ میں زیادہ نمبر حاصل کریں، ہر میدان میں دوسروں سے آگے نکلیں اور نمایاں نظر آئیں۔ لیکن کیا کبھی ہم نے انہیں یہ سکھایا کہ “اکیلے دوڑنے والے” نہیں بلکہ “ساتھ چلنے والے” زیادہ دیر تک منزل پر قائم رہتے ہیں
اصل کامیابی صرف سبقت لے جانے میں نہیں، بلکہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے اُن کی صلاحیتوں کو پہچاننے اور اجتماعی مقصد کے لیے کام کرنے میں ہے۔ افسوس کہ ہمارا نظامِ تعلیم، ہمارا گھریلو ماحول اور ہمارا معاشرتی رویہ بچوں کو اس بنیادی اصول سے ناآشنا رکھتا ہے۔
ہم بچوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر کامیاب ڈاکٹر، انجینئر، افسر یا استاد بنیں گے۔ مگر جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اکثر ٹیم ورک، تعاون، قیادت اور مؤثر ابلاغ کی کمی کی وجہ سے ناکامی الجھن اور تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ خلا اُس تربیتی کمزوری کا نتیجہ ہے جو ہم نے خود بچپن سے پیدا کی ہوتی ہے۔
تربیت کا پہلا میدان گھر ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کو روزمرہ کے فیصلوں میں شامل کریں، چھوٹے چھوٹے گھریلو کاموں میں ان سے مشورہ لیں اور انہیں خاندان کا ایک فعال رکن سمجھیں، تو بچہ صرف خود اعتمادی ہی حاصل نہیں کرتا بلکہ اجتماعی شعور بھی سیکھتا ہے۔ ماں اگر بچوں کو کہے کہ آج کھانے کا مینو تم طے کرو، یا باپ اگر بچوں کے ساتھ گھر کی کسی ترتیب میں مشورہ کرے تو بچے کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی رائے اہم ہے اس کی شرکت معنی خیز ہے، اور وہ ایک ٹیم کا حصہ ہے۔
اسی طرح اسکول اور کالج وہ جگہیں ہیں جہاں ٹیم ورک کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے صرف ٹاپرز کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان بچوں کو جو زیادہ بولتے، زیادہ یاد کرتے یا زیادہ نمبر لاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ بچے جو خاموش، حساس یا مشاہداتی نوعیت کے ہوتے ہیں، خود کو غیر اہم محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اگر اساتذہ گروپ پراجیکٹس، مباحثوں اور سماجی سرگرمیوں میں تمام طلبہ کو شامل کریں، اور ان کی کوششوں کو سراہیں، تو نہ صرف خاموش ذہن بولنا سیکھیں گے بلکہ ٹیم ورک کے جذبے سے لبریز نوجوان پروان چڑھیں گے۔
یونیورسٹی کی سطح پر جب طلبہ ریسرچ کرتے ہیں یا کسی تھیسس گروپ کا حصہ بنتے ہیں تو انہیں اکثر یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ٹیم کو لیڈ کیسے کیا جاتا ہے، اختلاف رائے کو کیسے سنبھالا جاتا ہے، اور ہر رکن کی خوبی کو کس طرح مجموعی فائدے میں بدلا جا سکتا ہے۔ جب یہی نوجوان عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو دفاتر میں صرف اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں، ادارے کے مجموعی مفاد کے بارے میں سوچنا ان کی ترجیح نہیں ہوتی۔
ترقی یافتہ اقوام نے یہ راز پا لیا ہے کہ صرف ذہین دماغ نہیں، مضبوط کردار، حساس دل اور باہمی ہم آہنگی رکھنے والے لوگ ایک کامیاب قوم بناتے ہیں۔ وہ بچے جو بچپن سے ہی سیکھتے ہیں کہ مشورہ لینا، مدد دینا، سننا اور ساتھ چلنا اہم ہے، وہ بڑے ہو کر نہ صرف کامیاب پیشہ ور بنتے ہیں بلکہ بہتر شہری، بہتر شوہر یا بیویاں، بہتر دوست اور بہتر انسان بھی بن جاتے ہیں۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم بچوں کو صرف نمبر کمانے والی مشین بنانا چاہتے ہیں یا ایسی شخصیات جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکیں۔ ہمیں یہ باور کرانا ہوگا کہ جیتنے کا مطلب صرف سبقت نہیں، بلکہ ساتھ چل کر جیتنا دوسروں کو ساتھ لے کر جیتنا زیادہ اہم اور پائیدار ہے۔
آج اگر ہم بچوں کو ٹیم کا حصہ بننے کا ہنر سکھا دیں، ان میں اتفاق، برداشت، مشورے کی اہمیت اور ایک دوسرے کی مدد کا شعور پیدا کر دیں تو یقین کریں ہم صرف ایک نسل نہیں بلکہ ایک روشن اور مربوط معاشرہ تشکیل دے رہے ہوں گے۔