قانُونِ فطرت تو یہی ہے کہ گدھی گدھے کو ہی جنم دیتی ہے نہ کہ Rottweiler (ایک اچھی نسل کا اپنے مالک کا وفادار کتا) کو۔ٹائم لائین کےشاہ حسین سے منقول ھے کہ ھمارے ہی اجداد، جو انگریز کا ایک من وزن صرف ایک روپے میں راولپنڈی سے مری تک لے کر جاتے تھے، ان کے پاؤں میں جوتی تک نہیں ہوتی تھی۔ پنڈی سے مری ستر کلومیٹر کا سفر ایک من وزن اٹھا کر دو دن میں مکمل ہوتا. یہ لوگ انگریز کی خدمت کرتے، اپنی پیٹھ پر سوار کر کے سیر کراتے اور انگریز خوش ہو کر اپنا بچا ہوا کھانا انہیں دے دیتا..
ہمارے اجداد نے ہی انگریزوں کی نوکریاں کیں. تنخواہ لے کر اپنے ہی لوگوں سے لڑتے رہے. انگریز نے ہندوستان پر سو سال حکومت کی، اس دوران کبھی بھی انگریزوں کی مجموعی تعداد پچیس ہزار سے زیادہ نہیں رہی.
انگلینڈ میں ایک مائیگریشن رجسٹر ہے۔ جس میں برطانیہ سے ہندوستان جانے والے 15،447 فوجیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں. تین لاکھ ہندوستانی تھے جو انگریزی فوج میں بھرتی ہوئے. بنگال رجمنٹ، پنجاب رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ انگریزوں نے بنائی۔
برصغیر کے بُھوکے ننگے، دو چار روپے ماہانہ تنخواہ پر لڑنے مرنے کو تیار رھتے تھے. پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کے خلاف انگریزی فوج میں نوے فیصد ہندوستانی ہی تھے، غداری کرنے والا بھی میر جعفر ہی تھا. سلطان حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان کے خلاف چار جنگیں لڑنے والے کون تھے؟
کوئی اور نہیں۔ میرے اور آپ کے اجداد تھے۔۔۔ انگریزوں کے خلاف سندھ حر پگاڑو ،کے لڑے اور انگریزوں کا ساتھ مری بلوچ بگٹی بلوچ نے دیا ۔بدلے میں سانگھڑ میں انکو جاگیریں ملیں۔
سرنگاپٹم سے میسور تک میر صادق نے کس طرح سلطان سے غداری کی، انگریز کو کس طرح وفاداری بیچی.. سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ بس آنکھیں کھول کر پڑھنے اور دماغ سے سوچنے والا چاہیۓ. علامہ اقبال نے کہا تھا:-
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ دیں، ننگِ قوم، ننگِ وطن
پنجاب میں رنجیت سنگھ جو انگریزوں کو مشکل وقت دکھا رھا تھا مُسلمانوں کو اس کے خلاف جہاد پر لگا دیا. سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید دہلی میں انگریزوں کے خلاف لڑنے کی بجائے، بالاکوٹ سکھوں سے لڑنے پہنچ گئے۔ اَسلحہ گولہ بارُود انگریزی استعمال ہوتا تھا.
انگریز دارالعلوم دیوبند کے سالانہ دورے کرتا تھا، اکابرین دیوبند کو وظائف دیتا تھا. اکابرین بریلوی اور اہلِ حدیث بھی حکومتی وظیفے لیتے رہے ہیں۔
اسلام کی آمد سے اب تک 1500 سالوں میں پوری دنیا میں اتنے پِیر ، دَستگیر ، وَلی ، محدث ، مجدد ، قطب ، مُفسر ، مناظر ، مقرر پیدا نہیں ہوۓ، جتنے انگریز کے 100 سالہ دور میں برصغیر میں پیدا ہوۓ تھے۔۔
کوئی اُڑتا رہا ، کوئی لمحے میں غائب ہو کر مدینہ پہنچ جاتا، کوئی غوث اعظم کے نام پر لطائف گھڑتا، کوئی لال شہباز قلندر کو پرواز کرواتا رھا۔
کسی نے نبیﷺ کے نور یا بشر ھونے پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی ، کسی نے حیات و ممات پر مسلمانوں کو دست بہ گریباں کروایا۔
یہ سب،انگریز وظائف دے کر اپنی سلطنت کو دوام بخشنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے کرواتے رہے ہیں۔۔۔۔
آپ کا کیا خیال ہے، پاکستان آزاد ہو گیا ہے؟
انگریز کی بنائی ھوئی رجمنٹس آج بھی حکمران ھیں۔عوام آج بھی محکوم ہے۔ آج بھی راشن کی قطاروں میں ذلیل ھو رھے یا مر رہے ہیں۔ اور اشرافیہ آج بھی انگریز سے وفاداری نبھا رہی ہے۔
جب کئی سال بعد دنیا کی تاریخ لکھی جائے گی تو ایک قوم “المجرمین پاکستان” کے بارے میں بھی یہ تلخ تاریخ لکھی جائے گی ۔۔۔
مؤرخ لکھے گا۔۔۔
قومِ عاد۔۔۔ قوم ثمود۔۔۔اور قومِ لُوط و دیگر کے سارے مجموعی گناہ اس قوم میں پائے جاتے تھے۔۔۔
یہ ایک ایسی قوم تھی جو نام تو اللہ کا لیتی تھی، مگر مانتی اپنے اپنے اپنے آلہ کاروں کو تھی۔۔۔
قرآن کو اپنی کتاب مانتی تھی، پر عمل کے لئے انسانی ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابوں پر یقین تھا۔۔۔
ایک ایسی قوم تھی جس کو تعلیم صرف جاہل بنانے کے لئے دی جاتی تھی۔۔
ایک ایسی قوم تھی جس کے مذہبی پیشوأ، خود تو دنیا کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوتے تھے، مگر ان کو غربت افلاس کے فائدے بتا کر جنت کے ٹکٹ دیتے تھے۔
ان کے حکمران بادشاہوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ مگر اس قوم کے نچلے طبقے کے پاس کھانے کو روٹی تک نہیں تھی۔۔۔
موءر خ لکھے گا:-
*اس قوم کا انصاف بکتا تھا۔ طاقتور کے لئے علیحدہ قانون، اور غربأ کے لئے الگ قانون تھا۔
اس قوم کے قاضی انہی کی طرح کرپٹ اور انصاف سے عاری تھے۔۔۔
لکھا جائے گا:-
اس قوم کے سیاستدان خود غرض، نا اہل اور بےحس تھے۔ مگر یہ قوم ایسے سیاستدانوں کو اپنا مسیحا سمجھتی تھی اور ان کے لئے ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کو بھی تیار رہتی تھی۔
ایک ایسی قوم تھی جو لمبی لمبی دعائیں اور بددعائیں کرتی تھی۔ مگر اس کا عملی کردار انتہائی ناگفتہ بہہ اور بیہودہ تھا۔۔۔
ایک ایسی قوم تھی جس میں حرام خور عزت دار کہلاتے تھے۔ اور محنت کر کے کھانے والے کمی کمین۔۔۔
ع۔۔بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
یا پھر ھوتو یہی رھا ھے:
تھی اناالحق ،حق مگر کہنی نہ تھی
یار کی محفل سے باہر یار کی محفل کی بات
ھماری غربت و افلاس کی وجہ سے انگریزوں کو غدار کبھی نہ ملتے اگر 1650ء میں شاہ جہاں سات من سونے کے تخت پر نہ بیٹھا کرتا۔اس کے پڑ پوتے جہاندار شاہ جو1713میں قتل ھوا تب با دشاہ تھاجب ایک پیسے میں تین پائیاں ھو تی تھیں اور ان کی value آج کے سو روپے سے بھی زیادہ تھی۔
تب اس نے ایک طوائف لال کنور کو بیش بہا زر و جواہر دینے کے علاوہ دو کروڑ روپے سالانہ اس کے اخرا جات کے لئے مقرر کر رکھے تھے۔اس کے بھائیوں و دیگر رشتے داروں کو سلطنت کے بڑے بڑے عہدے سونپ دیے گئے ۔اس کے چچیرے بھائی کو ملتان کا صوبے دار مقرر کیا گیا جو رشوت لیے