مسئلہ فلسطین پر پاکستانی قوم کے جذبات

اورنگزیب اعوان

6

فلسطینی نہتی عوام پر اسرائیل کی طرف سے ہونے والے انسانیت سوز واقعات اقوامِ عالم سے سوال کرتے ہیں. کہ کیا عالمی قوانین صرف اور صرف من پسند اقوام کے لیے بنائے گئے ہیں. امت مسلمہ پر ہونے والے مظالم پر اقوام عالم کی خاموشی ظاہر کرتی ہے. کہ قوانین کمزور کے لیے بنائے جاتے ہیں. طاقت ور ان قوانین کو کسی گنتی میں نہیں لاتا. ستم ظرفی تو یہ ہے. عالم اسلام بھی ان مظالم پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے. چند ایک اسلامی ممالک میں فلسطینی عوام کے حق میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں. مگر تاریخ گواہ ہے. کہ مظاہروں سے کسی قوم کو آزادی نہیں ملی . مسئلہ کشمیر اس کی زندہ مثال ہے. پاکستان ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتا ہے. پھر سال بھر خاموشی ہی خاموشی. فلسطینی عوام پر ہونے والے دلخراش واقعات نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے. مگر غاضبوں کا مردہ ضمیر جاگ نہیں سکا. پاکستانی قوم کا جذبات میں کوئی ثانی نہیں. یہ امت مسلمہ کے درد کو اپنا درد تسلیم کرتی ہے. دنیا بھر کے مسلم ممالک میں ہونے والے مظالم پر پاکستانی قوم نے ہمیشہ لبیک کہا ہے. اور ان مظالم کے خلاف ہمیشہ جرآت مندانہ قدم اٹھایا ہے. بسا اوقات ہمیں اپنے اس اقدام کی وجہ سے نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے. مسئلہ افغانستان پر ہم نے نہ صرف افغانی عوام کو اپنے ملک میں پناہ دی. بلکہ ان کی مسلح جدوجہد میں بھرپور ساتھ دیا. جس کے نتیجہ میں ہمارے ملک میں منشیات اور ناجائز اسلحہ کی بھرمار ہوئی. ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں منشیات کا زہر سرایت کرتا رہا. دہشت گردی نے ہمارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. لاکھوں معصوم شہری بم دھماکوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے. اور ملکی معیشت کو الگ سے نقصان سے دوچار ہونا پڑا. ظاہر ہے. جب ملک میں دہشت گردی کی فضا ہوگی. تو غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری سے گریز کرے گے.اب ایک بار پھر سے فلسطین کے نام پر نام نہاد سیاسی اور مذہبی جماعتیں پاکستانی قوم کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کر رہی ہیں. کیونکہ انہیں پتہ ہے. کہ یہ انتہائی جذباتی قوم ہے. جو سوچے سمجھے بنا کوئی قدم بھی اٹھا لیتی ہے. ان مردہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی سیاست ہی ایسے مذہبی ایشو پر چمکتی ہے. ملک گیر ہرتالوں، تالہ بندی ،بائیکاٹ سے ان کی تجوریاں بھرتی ہیں. اور عوام کی جیبیں خالی ہوتیں ہیں. ظاہر ہے روز روز ہڑتال ملکی معیشت کو برباد کر دیتی ہے. ہمارے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے. آجکل غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی ہے. جس کے تحت کے ایف سی ،میکڈونلڈ، پیپسی کولا ، کوکا کولا وغیرہ کو یہودی پروڈکٹ قرار دے کر ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے. ایسے میں امت مسلمہ بالخصوص پاکستانی قوم سے سوال بنتا ہے. کہ انہوں نے ان کے مقابلہ میں کون سی بین الاقوامی پروڈکٹ تیار کی ہے. جس کو امت مسلمہ یا پاکستانی قوم استعمال کر سکتی ہے. مسلم حکمران تو عیاشیوں اور دولت اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں. ان کا اس بات سے کیا لینا دینا. پاکستان قوم جو بڑھ چڑھ کر ان مصنوعات کے بائیکاٹ کا پرچار کر رہی ہے. ملاوٹ ،ناجائز منافع خوری میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں. یہ تو دودھ میں کیمیکل ملا دیتے ہیں. بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کیمیکل میں دودھ شامل کرتے ہیں. تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا. مرچوں میں اینٹین پیس کر شامل کی جاتیں ہیں. پیپسی کولا اور کوکا کولا کے نام پر جعلی مشروبات تیار کرکے لوگوں کو پلائیں جا رہے ہیں. غرض کوئی بھی کھانے پینے والی چیز ایسی نہیں. جس میں ہم لوگ ملاوٹ نہیں کرتے. بات یہی ختم نہیں ہوتی. ہم تو اخلاقی طور پر اس قدر گر چکے ہیں. کہ ہم نے تو زندگی بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ کرکے ناجائز منافع خوری شروع کر رکھی ہے. ہمارے ان اقدام کی وجہ سے لوگ گردوں، کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں. اور ہم لوگ ناجائز طریقہ سے دولت اکٹھی کر رہے ہیں.ہم سے بہتر تو یہود ہیں. جو کھانے پینے کی اشیاء میں کسی قسم کی ملاوٹ کرنا مذہبی طور پر جرم تصور کرتے ہیں. اسی لیے تو ہم مسلمان اپنے ملک کی تیار کردہ مصنوعات کو چھوڑ کر ان کی مصنوعات پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرتے ہیں. غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے پہلے ہمیں اپنی حرکات پر نظر ڈالنی چاہیے. کہ ہم لوگ محض چند پیسوں کی خاطر کس طرح سے انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں. جب ہم بطور انسان انسانیت کے مرتبہ کو سمجھ جائیں گے . اور انسانی جانوں سے کھیلنے کے مکروہ دھندہ سے باز آجائے گے . تب کہی جاکر غیر ملکی مصنوعات کی بات ہمارے منہ سے اچھی لگے گی. یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے. کہ ان غیر ملکی پروڈکٹس کے بائیکاٹ سے کس کا نقصان ہوگا. پاکستان میں جتنے کے ایف سی ،میکڈونلڈ، پیپسی کولا، کوکا کولا کے ادارے چل رہے ہیں. ان میں کام کون کرتا ہے. ظاہر ہے ان میں ملازمت پاکستانی ہی کرتے ہیں. لاکھوں پاکستانی ان اداروں کی وجہ سے باعزت روز گار کما رہے ہیں. اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہے ہیں. ان اداروں کی وجہ سے ملکی معیشت کو بھی کروڑوں روپیہ بطور ٹیکس ملتا ہے. اگر ان کو بند کرے گے. تو لاکھوں پاکستانی بے روز گار ہو جائے گے. ملکی معیشت کو بھی خسارہ برداشت کرنا پڑے گا. اس لیے جذبات سے نہیں ہوش سے کام لیں. ان کے مقابلہ میں خود کو تعلیمی میدان میں منوائے. اعلی اخلاقی اقدار کی مثال قائم کرے. اپنی ایسی مصنوعات تیار کرے. جن کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہ ہو. مگر بدقسمتی سے ہم لوگ ان اشیاء میں بہت پیچھے ہیں. کسی بھی چیز کا اس وجہ سے بائیکاٹ کرنا. کہ یہ ہمارے نا پسندیدہ شخص کی ہے. مناسب نہیں. آپ پہلے اس سے بہتر یا کم از کم اس کے معیار کی چیز تو تیار کرے. کسی کی باتوں میں آکر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.