ایک شخص سے اس کی بیوی نے غسل خانے کے پاس سے درخت یہ کہہ کر کٹوا دیا کہ مجھے غسل کرتے وقت پرندوں کی نظر سے بھی حیا آتی ہے۔
کچھ عرصے بعد وہی شخص جب خلافِ معمول اچانک گھر آیا تو اپنی بیوی کو ایک غیر مرد کے ساتھ مشغول دیکھ کر اتنا دل برداشتہ ہوا کہ اپنا گھربار چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا گیا۔ وہاں اسے اللہ نے کاروبار میں اتنی ترقی دی کہ اسکی رسائی اعلی حکومتی عیدے داروں تک ہوگئ۔
ایک دن اس شہر میں کوتوال کے گھر چوری ہوگئی۔ باوجود کوشش کے چور نہ پکڑا گیا۔
اس شخص نے مشاہدہ کیا تو ایک شیخ کا کوتوال کے گھر بہت آنا جانا تھا۔ وہ شیخ بظاہر اتنا نیک تھا کہ پورا پاؤں بھی زمیں پر یہ کہتے ہوئے نہ رکھتا کہ کہیں کوئی کیڑا مکوڑا پاؤں کے نیچے نہ آجائے۔
یہ دیکھ کر وہ شخص فوراََ کوتوال کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کی چوری اِسی شیخ نے کی ہے۔جب تحقیق کی گئی تو مال مَسرُوقہ اُسی شیخ سے برآمد ہوا۔
کوتوال نے حیرانگی کے ساتھ اس شخص سے پوچھا کہ تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟
اس نے جواب دیا: “میرے گھر کے ایک درخت نے مجھے نصیحت کی تھی کہ جو لوگ ضرورت سے زیادہ “نیک” نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ، عموماً وہ نیک نہیں ہوتے۔”
پیارے قارئین کرام: یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ارد گرد کئی لوگوں کا ظاہر اور باطن مختلف ہوتا ہے۔ بظاہر مذہبی حلیہ اور حقیقت میں مذہب سے کوسوں دور۔ میرے ایک جاننے والے دوسروں کی شادیوں پر ناچ گانے اور بے پردگی کے خلاف بڑے بڑے لیکچر دیتے تھے لیکن جب اپنے گھر میں شادی ہوئی تو عین عورتوں والی جگہ ان کا ناچ سب سے زیادہ دیکھنے کے قابل تھا۔ آپ اکثر دیکھیں گے مذہبی ٹچ والے دکاندار زیادہ مہنگی اشیاء بیچ رہے ہونگے۔
زرا ملکی سیاست کا حال دیکھیے تو منافقت جو بازار گرم پے اس پر لکھنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب کچھ انتہائی ڈھیٹ پن کے ساتھ کھلے عام ہوتا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ سے لیکر عوام سے جھوٹے وعدوں تک ہر چیز آپ کے سامنے ہے۔ اسی طرح مساجد میں تفرقہ بازی اور زیارات میں شخصیت پرستی سے لیکر ہر مقام تک دوہرے معیار نے ہمیں اقوام عالم میں کسی قابل نہیں چھوڑا۔
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ فیس بک پر تو انتہائی مذہبی و بااخلاق نظر آتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں ان کے شر سے محلے دار، رشتے دار حتی کہ گھر والے بھی محفوظ نہیں ہوتے۔
ابھی چند دن پہلے ہی میری نظر سے اک شرابی و زانی بندے کی آئی ڈی گزری۔ اس کی وال پر بہترین اقوال زریں اور احادیث موجود تھیں۔ اسی طرح اک خاتون کی آئی ڈی پر پردے کے حق میں تسلسل کے ساتھ پوسٹیں نظر آئیں لیکن ان کی بے پردگی اف اللہ۔
میرا نقطہ یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ فیس بک پر اگر اللہ نے اچھی باتوں کا موقع دیا ہے تو اللہ دے اور بندہ لے، لیکن حقیقی زندگی میں بھی اس کا تھوڑا بہت عکس تو ضرور نظر آنا چاہیے۔ اس طرح انسان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے ورنہ دیکھنے والے کا یقین و اعتماد ہر چیز سے اٹھ جانے کا گناہ اس مرد یا عورت کے سر پڑتا ہے۔
سوشل میڈیا کے بہت سے فائدے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے بناوٹ اور منافقت کو جو رواج دیا ہے اس سے معاشرے میں دوہرے معیار کے لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ باطن بہتر کیے بغیر ظاہری نیک پروینی اور فیک نیوز کی کثرت نے سوشل میڈیا کی سچی خبر پر سے بھی اعتبار اٹھا دیا ہے۔
اللہ تعالی سے قلبی دعا ہے کہ ہمارا ظاہر اور باطن دونوں صالح کر دے اور تحریروں کی طرح ہمیں معاملات کا غازی بننے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔