مہنگی شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ؟

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

9

گذشتہ دنوں ایک جگہ شادی کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں لاکھوں روپے کی سجاوٹ سے پر رونق ہال میں  قوالی نائٹ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔مجھے حیرت اس وقت ہوئی کہ جب قوا ل حضرات پر نوٹوں کی بارش کردی گئی اور نوٹ سمیٹنے والے بار با ر نوٹ اٹھاتے لیکن پھر سے نوٹ اس قدر نچھاور ہورہے تھے کہ پورا فرش نوٹوں سے پھر سے بھر جاتا ۔ نوٹ نچھاور کرنے والوں میں جھومتے ہوۓ  ہر عمر اور ہر طبقہ کے مرد و خواتین کو دیکھا جاسکتا تھا ۔فوٹو شوٹ کی بھر مار   اور رنگ برنگ سرچ لائیٹوں سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں ۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ہمارے ملک پاکستان کا ہی منظر ہے ؟ جہاں غربت اور مہنگائی کی باعث بہت سے  گھروں کے چولہے نہیں جل پاتے اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی  بھی نصیب نہیں ہوتی ۔یہ اسی ملک کے باشندۓ ہیں جو معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں شادیاں بطور فریضہ نہیں بلکہ لوگوں کو دکھاونے اور اپنی مالی حیثیت کی رونمائی کے لیے کی جاتی ہیں  ۔ان غیر ضروری رسم ورواج نے آج شادی کو انتہائی مشکل بنادیا ہے ۔کیونکہ اب اشرافیہ کی شادی کو دکھاوا بنا دیا گیا ہے ۔لگتا ہے کہ لوگ شادی کی تقریبات کا انعقاد اپنی مالی  حیثیت سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں  اور اشرافیہ کی دکھا دیکھی متوسط طبقہ کے لوگ ایسی تقریبات کے انتظام کے لیے بھاری قرضے  اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ایسے ہی جنوری میں سیالکوٹ کے علاقے سمبڑیال میں ایک اورسیز پاکستانی کی شادی کے موقع پر تقریبا” پچاس لاکھ روپے کی ملکی و غیر ملکی کرنسی نچھاور کرنے کی یہ خبر اور تصویر ایکپریس نیوز دیکھنے میں  آئی ۔اس مقصد کے لیے شادی ہا ل میں ایک  خصوصی کنٹینر کا انتظام کیا گیاتھا ۔اسی ماہ گوجرانوالہ میں ایک شادی کی تقریب میں ملکی و غیر ملکی کرنسی کے ساتھ ساتھ چاندی کی انگوٹھیاں بھی مہمانوں  پر نچھاور کی گئیں ایکپریس نیوز کے مطابق بڑی تعداد میں لوگ نوٹ اور انگوٹھیاں جمع کرنے کے لیے وہاں موجود تھے ۔ایسی ہی بےشمار خبریں میڈیا پر آۓ دن دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں ۔یہ واقعات معاشرتی نمود ونمائش اور فضول خرچی کی عکاسی کرتے ہیں اور سماجی عدم مساوات کو بڑھاوا دیتے ہیں اور یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایسے بھاری اخراجات کا رجحان پوری دنیا کے ساتھ ساتھ یہ المیہ اب ہمارے ملک میں بھی تیزی سے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔جو ایک توجہ طلب لمحہ فکریہ ہے ؟

مہنگی شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ایک سنگین مسئلہ بنتا چلا جارہا ہے ۔سادگی کی بجاۓ نمود ونمائش ،مہنگے برانڈز،پرتکلف کھانے ،مہنگی آتش بازی اور لگژری وینیوز ،فوٹو سیشن ،قوالی نائٹ ،میوزک نائٹ  کا کلچر پروا ن چڑھ رہا ہے ۔اس رجحان کے کئی پہلو دکھائی دیتے ہیں جن میں سماجی دباؤ ، ٹی وی ڈراموں ،سوشل میڈیا کا اثر اور اسٹیٹس سیمبل بنانے کی دوڑ بھی شامل ہو چکی ہے ۔شادیوں میں دولہا کا شیر پر بیٹھ کر آنا،نوٹوں اور ڈالرز کی برسات ،دولہا دلہن کا ہیلی کاپٹر پر شادی ہال آنا   ،آتش بازی ،قوالی نائٹ اور موسیقی کی محفلوں میں بےتحاشا  نوٹ نچھاور کرنے کے واقعات اب اکثر ہماری خبروں کی زینت بن رہے ہیں ۔لاکھوں روپے اعلیٰ درجہ کے شادی ہال ،اسٹیج  کی سجاوٹ اور بیوٹی پارلرز کی نذر کر دیے جاتے ہیں ۔ دنیا دکھاوۓ کے لیے  سوشل میڈیا ،انسٹا گرام ،فیس بک پر وائرل ہونے والی مہنگی شادیوں کی ویڈیوز عام لوگوں کو بھی اسی طرز پر شادی کے اخراجات کرنے پر مجبور کرتی ہیں ۔سماجی دباؤ کا یہ عالم ہے کہ خاندان اور برادری کی توقعات اور ایک دوسرے سے مقابلے کا رجحان اکثر والدین کو قرض لینے یا زندگی بھر کی کمائی خرچ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔دوسری جانب شادی انڈسٹری ایک بڑا کاروبار بن چکی ہے جہاں ایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں ،ڈائزئنرز ،بیوٹی پارلرز  اور فوٹو گرافرز لاکھوں روپے وصول کر ہے ہیں ۔بہت سے خاندانوں میں تو مہنگی شادی کو خاندان کی عزت ووقار کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے جس سے متوسط اور نچلے  اور غریب طبقے کی لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں  اور غریب پر شدید مالی دباؤ  ہوتا ہے۔جہیز ،بری ،مہندی کی رسم او دیگر غیر ضروری اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔سونے کا ریٹ تین لاکھ روپے تولہ سے تجاوز کر چکا ہے اس لیے یہ اب عام آدمی کی  دسترس میں نہیں رہا  مگر اس کے باوجود  سونے کے زیورات کے بغیر شادی کا تصور نہیں ہے ۔لیکن آج بھی شادی کے بجٹ میں سب سے زیادہ خرچ زیورات اور ملبوسات   پر ہی ہوتا ہے ۔شادی کا بنیادی مقصد تو دینی فرایضہ کی ادائیگی   اور ایک نئی زندگی کا آغاز  ہوتا ہے جس پر توجہ دینے کی بجاۓرسومات پر زور دیا جارہا ہے ۔دوسری جانب شادیوں کے یہ غیر معمولی اخراجات ہمارے معاشرۓ میں شادیوں میں تاخیر اور روکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں ۔اگر اس بڑھتے منفی رجحان کو روکا نہیں گیا تو  معاشرہ طبقاتی تقسیم اور مزید معاشی دباؤ کا شکار ہوجاۓ گا ۔یہی وقت ہے کہ ہم اپنی اقدار  اور حقیقی خوشیوں کی طرف لوٹیں اور اسلامی طریقہ اپناکر سادگی سے فریضہ ادا کریں جہاں شادی محبت ،اعتماد اور شراکت داری کا نام ہو ،نہ کہ بےجا اخراجات اور معاشرتی دباؤ اور مجبوری بن جاۓ ۔شادی اور نکاح کو آسان بنائیں  تاکہ والدین  غیر ضروری خرچ اور جہیز جیسی لعنت سے بچ سکیں ۔جہیز کا  رجحان بھی کم ہونے کی بجاۓ دن بدن بڑھ رہا ہے ۔چند دن قبل ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دوست کی بیٹی کی شادی کے لیے جہیز کا جو پیکج لینا پڑا اس کی مالیت تقریبا” پچاس لاکھ روپے بنتی تھی ۔جبکہ لمبی چوڑی برات،مہندی  اور شادی کے مہمانوں کا ون ڈش کھانا بھی دس لاکھ روپے کا بن گیا تھا ۔ایک عام آدمی ان اخراجات کے تصور سے ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ شادی کے بڑھتے اخرجات کے  اس منفی رجحان سے کیسے بچا جاۓ ؟ ریاستی سطح پر  کچھ  قوانین پہلے ہی سے موجود ہیں جیسے ون ڈش پالیسی اور شادی کے لیے وقت اور اخراجات کا تعین ہے ،لیکن عملدرامد میں کمی کی باعث فضول سا دکھائی دیتے ہیں ۔جہیز پر سختی سے  پابندی لگا کر موجودہ حالات کے مطابق شادیوں پر خرچ کی حد مقرر کی جاۓ لیکن خیال رہے کہ ہمیں حکومتی اقدامات پر ہی تکیہ نہیں کر نا چاہیے بلکہ انفرادی اور اجتماعی بنیادوں پر اس معاشرتی مسئلہ کے حل کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھا کر  عوامی شعوری بیداری کے لیے کام کرنا چاہیے ۔ ہمارے میڈیا  اور مسجد ومنبر سے بھی ان فرسودہ رسومات اور معاشرتی برائی  کے خاتمہ کے لیے آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔سادگی سے اس فریضہ کی ادائیگی عین اسلامی طریقہ ہے ۔دوسری جانب ہمارے سماجی رویوں میں تبدیلی لانے کےلیے  کوشش کی جانی چاہیے اور  دکھاوۓ ،نمود ونمائش اور مقابلے بازی سے بچنا چاہیے  جہیز اور دیگر غیر ضروری رسوت کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے ۔مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر نبی کریم ؐ کی سنت کے مطابق شادی کو آسان اور با برکت بنایا جانا چاہیے ۔علما کرام کو شادیوں میں اسراف اور فضول خرچی کے خلاف  وعظ وہدایت کرنی چاہیے ۔تعلیمی اداروں میں طلبہ کو سادگی اور مالیاتی منصوبہ بندی کے بارۓمیں شعور دیا جاۓ ۔تاکہ نئی نسل مہنگی شادیوں کے دباؤ سے نکل سکے ۔معاشرۓ میں اجتماعی شادیوں کو فروغ دیا جاۓ تاکہ کم وسائل والے لوگ آسانی سے یہ فریضہ ادا کر سکیں ۔مہنگی شادیوں کی حوصلہ شکنی اور سادگی کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔اگر ہم ان چند اقدامات کو ہی  اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو معاشرے میں مہنگی شادیوں کے رجحان میں کمی لا ئی جا سکتی ہے ۔خدارا  ،یہ نہ سوچیں کہ دنیا والے اور لوگ کیا کہیں گے؟ بلکہ اپنے وسائل اور آسانی کو مدنظر رکھیں  اور سادگی کو اپنے لیے قابل فخر سمجھیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.