یادوں کے چراغ  

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

1

احمدپورشرقیہ سے ریاست بہاولپور کے دارالخلافہ ڈیرہ نواب صاحب کی جانب جاتے ہوۓ مشہور کینچی موڑ سے پہلے ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر درج “سردار امان اللہ خان روڈ ” پڑھتے ہی ایک ایسی شخصیت ذہن میں آتی ہے جو ہمارے بچپن کی بےشمار یادوں کا محور ہوا کرتی تھی ۔ان کی پروقار  بارعب اور خوش لباس شخصیت ہمارے اس شہر میں ان کے علاوہ شاید ہی چند ایک کی ہوا کرتی تھی ۔ہمیشہ ہر شہر کی کچھ ہی شخصیات اس شہر کی پہچان اور شناخت بن جاتی ہیں  ۔ اس لیے ان کی شخصیت کو شہر کی پہچان کہا جاۓ تو بےجا نہ ہوگا ۔ہمارے اباجی مرحوم فرماتے تھے کہ کسی بھی مثالی شخصیت کی چند خوبیاں ہی اسے ممتاز بناتی ہیں ۔جیسے دیانت داری ،عدل وانصاف ،ہمدردی اور رحم دلی ،صبر واستقامت ،احترام و اخلاق ،دانائی وحکمت ،تخلیقی سوچ ،سیکھنے اور سیکھانے کا شوق ،خود اعتمادی ،وسعت نظری ،قائدانہ صلاحتیں ،ایثار وقربانی ،اتحاد اور تعاون ،محبت وخلوص ،محنت ولگن ،وقت کی پابندی ،تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت ،معاف کرنے کا جذبہ،مثبت رویہ اور دلیری و بہادری جو بہت کم لوگوں میں یکجا ہو تی ہیں کسی بھی شخصیت  کی کامیابی کو پرکھنے کا یہی پیمانہ ہوا کرتا ہے ۔

زندگی کچھ لوگوں کو ایسی وجاہت ،بردباری  اور نیک نامی عطا کرتی ہے کہ ان کی موجودگی خود ایک سرمایہ ہوتی ہے ۔کچھ ہستیاں وقت کے ساتھ ساتھ ذہنوں سے کبھی نہیں مٹتیں بلکہ اپنی خوشبو ،اپنے کرادار  اور اپنی بےپناہ خوبیوں کے سبب دلوں میں ہمیشہ زندہ  رہتی ہیں ۔آج یہ تحریر ایک ایسے ہی باوقار شخصیت کی یاد میں ہے جن کی پچیسویں  برسی بارہ فروری کو ہونے جارہی ہے ۔ایک معزز راجپوت سردار عبدالعزیز خان کے گھرانے میں یکم جولائی ۱۹۲۲ٗ ء کو جنم لینے والے یہ اکلوتے اور خوش قسمت فرزند  تھے ان کے والد معروف زمیندار  اور کپڑے کے بڑے تاجر ہوا کرتے تھے ۔اس لیے ناز ونعم سے پلے اپنے برخوردار  اکو تعلیم کے زیور سے خصوصی طور پر آراستہ  کیا گیا تھا یہ وہ دور تھا جب پڑھے لکھوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوا کرتی تھی ۔ایس سی کالج بہاولپور تعلیم مکمل کرکے  ریاست بہاولپور کی مسلخ افواج میں بطور سیکنڈ لفٹیننٹ کمیشن حاصل کیا ۔وہ  نواب بہاولپور کے فرزند جنرل ایس ایم عباسی مرحوم سابقہ گورنر سندھ کے بیج میٹ بھی تھے ۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد والدہ صاحبہ کے بے حد اصرار پر فوج سے استعفیٰ دے دیا  اور اپنے ماموں مہتمم جاگیر  غلام محمد خان مرحوم کے کہنے پر انہوں نے بطور ایکسائز انسپکٹر اپنی نئی عملی زندگی کا آغاز کیا اور اپنی بےپناہ محنت سے بطور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر کے عہدہ پر ترقی پا کر ڈیرہ غازی خان ،رحیم یار خان اور ساہیوال اضلاع میں شاندار خدمات انجام دیں اپنے انفرادی اور منفرد اخلاق اور طرز ملازمت کی باعث عوام الناس  میں بےپناہ مقبولیت اورعزت کے حامل ہو گئے ۔ یہ ہر دلعزیز شخصیت ہمارے والد مرحوم کے دوست  اور ہمارے علاقے کی پہچان سرادر امان اللہ خان مرحوم کی تھی وہ جب بھی اپنے ذاتی تانگے پر  اباجی مرحوم سے ملنے آتے تو ہم بچے ان کی شخصیت کے سحر میں کھو جاتے تھے ان کی مخصوص اور منفرد مسکراہٹ اور ملنے  کا والہانہ پن  ان کی شخصیت کا خاصا ہوا کرتی تھی ۔وہ ہمیشہ ہم بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آتے تھے کبھی  خالی ہاتھ نہیں آۓ  اس لیے ہم بچوں کو ان کی آمد کا انتظار رہتا تھا ۔ہم یہ بھی جانتے تھےکہ ہمارے اباجی کے دوستوں میں وہ ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ کچھ لوگ محض نام یا رشتے یا عہدے کی وجہ سے یاد نہیں رکھے جاتے بلکہ ان کے رویے  یاد رہتے ہیں ۔وہ جب بھی اباجی سے بات چیت کر رہے ہوتے  تو ایک مخصوص سا وقار محسوس ہوتا نظریں جھکتیں ،کان متوجہ ہوتے اور دل ان کے الفاظ کی تاثیر کو محسوس کرتا ۔ان کا دبدبہ اور رعب محض بلند آواز یا سخت لہجے کا مرہوں منٹ نہ تھا بلکہ ان کی بلند سوچ ،ان کے فیصلے اور ان کی غیر متزلزل شخصیت نے انہیں ایک باوقار مقام عطا کیا تھا ۔وہ اصولوں پر جیتے اور ان کے لیے قربانیاں دینا جانتے تھے ۔ان کی زندگی میں کبھی جھوٹ منافقت یا مفاد پرستی  کا سایہ تک نہ تھا ۔وہ ایسے غریب پرور انسان تھے کہ جن کی ساتھ بیٹھنے والا  ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھ کر یا لے کر ہی اٹھتا تھا ۔ان کی سوچ کی بلندی صرف الفاظ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ان کے عمل نے بھی ہمیشہ سچائی اور دیانت  کی گواہی دی ۔وہ معاملات کو سطحی نظر سے نہیں دیکھتے تھے  بلکہ ان کے اندر جھانک کر ایسی گہرائی  سے فیصلے کرتے کہ لوگ حیران رہ جاتے  وہ اپنے فیصلوں اور دوراندیشی سے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بےشمار مشکلات سے بھی بچا لیتے تھے

سردار امان اللہ خان مرحوم جنہیں ہم نے ظاہری طور پر تو کھو دیا ہے مگر ان کی محبت ،اصولوں ،وضع داری سے بھرپور زندگی آج بھی ہمارے دلوں میں  روشن ہے ۔ان کی یادوں کے چراغ مجھ سمیت بےشمار لوگوں کے دلوں میں آج بھی روشن ہیں ۔وہ صرف ہمارے والد مرحوم کے ہی قریبی دوست نہ تھے بلکہ ایک  وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے ۔ان کی گفتگو  میں دبدبہ اوروقار ،ٹھہراو ،سوچ میں گہرائی اور رویوں میں شائستگی کا ایسا امتزاج تھا جو بہت کم لوگوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔وہ اپنے دوستوں کے لیے خلوص اور ایثار کا پیکر اور حلقہ احباب کے لیے شفقت کی چھاوں کی طرح ہوا کرتے تھے ۔ان کی زندگی خدمت ،ایمانداری اور سچائی کی آئینہ دار تھی ۔انہوں نے ہمیشہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کی بجاۓ ان کے لیے قربانی دینا پسند کیا ۔شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ہر محفل  میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ان کا علم ان کی مسکراہٹ بھری گفتار اور ان کی بےلوث محبت آج بھی ہمارے ذہنوںمیں نقش ہے ۔جی ہاں ! آج کی یہ تحریر ایسی ہی ایک نابغہ روزگار ہستی کی یاد میں ہے  جو ہمارے والد کے ناصرف دوست تھے بلکہ ہمارے لیے بھی ایک فکری و  اخلاقی روشن مینار کی حیثیت رکھتے تھے ۔۔ ۔کہتے ہیں کہ  والد اولاد کا محسن ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ انسان اور خصوصی اولاد کی تعمیر وترقی اور شخصیت سازی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جس کے لیے وہ اپنی بساط سے بھی بڑھ کر  دن رات تگ ودو کرتا ہے  اور اپنے خوابوں کی تعبیر اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتا ہے ۔ا ن کی اعلیٰ سوچ اور دور اندیشی  کا اندازہ ان کی اولاد کی تربیت کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ان کے تینوں بیٹے نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ  کے جج اور پولیس کے اعلیٰ آفیسرز ہونے کے باوجودہ اپنے اخلاق او ر وارثت میں ملی ہوئی ملنسار طبیعت کی باعث  آج بھی ہمارے پورے شہر لوگوں کی آنکھوں کا تار ا ہیں ۔ا ن کے فرزند حفیظ اللہ خان (تمغہ امتیاز ) جو آجکل  بطور ڈسٹرکٹ سیشن جج رئٹائرمنٹ کے بعد پنجاب  جوڈیشنل اکیڈمی لاہور میں بطور ایڈمن فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ایک قابل جج ہونے کے ساتھ ساتھ اردو وسرائیکی ادب کے نامور دانشور ،ادیب اور بےشمار کتب کے مصنف ہیں ۔ان کا شمار صرف پنجاب کے قابل ترین جج کے طور پر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی بڑی علمی وادبی شخصیت کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے ۔ان کے دوسرے برخوردار جو میرے کلاس فیلو بھی رہے ہیں ایک وراثتی  دلیری کے حامل  بہادر اور مثالی پولیس آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں جی ہاں ! ڈی ایس پی (رئٹائرڈ ) عزیز اللہ خان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ لاہور ان کی بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ بھی نہ صرف ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ان کے بہادرانہ کارناموں کی ایک طویل داستان زبان زد خاص وعام ہے ۔ان کا یوٹیوب چینل اور ان کے مضامین نوجوان طبقہ میں بےحد مقبول ہیں ۔اور تیسرے برخوردار حبیب اللہ خان  بھی رئٹائرڈ  ایس ایس پی اور ڈی پی او رحیم یار خان تعینات رہ چکے ہیں ہیں  اور ایڈوکیٹ بھی ہیں ۔والد سے ملی معاملہ فہمی  اور فہم وفراست کی وارثت  کی بنا پرگوناگوں صفات  کی باعث شاید عام لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول بھی وہی ہیں اور اپنے والد  کی  طرح کی بےشما رخصوصیات کا علم تھامے ہوۓ ہیں ۔۔ عدلیہ اور پولیس ملازمت کے باوجود ان  تینوں بھائیوں کے اعزازت صرف ان کے بزرگ  اور والد مرحوم سردار امان اللہ خان  کی وراثتی محبت اور ان کی دی گئی تربیت کا ہی نتیجہ ہیں ۔اس خاندان سے باہمی محبتوں کا یہ سلسلہ ہماری نئی نسل تک بدستور جاری ہے ۔

آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے تو ان کی کمی صرف ایک شخص کی جدائی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے عہد کی رخصتی ہے  جہاں سچائی ،وقار اور بڑی سوچ رکھنے والے لوگ نایاب ہوتے جارہے ہیں   برسی کے اس موقع پر ہمیں یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ ایسے شخصیات دنیا سے رخصت ہو بھی جائیں تو تب بھی وہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتی ہیں ۔ا ن کے زندگی گزارنے اصول و انداز ،ان کی دی ہوئی تربیت اور ان کی خوبصورت یادیں ہمیشہ ایک روشنی   کے مینار کی مانند ہمارا راستہ روش کرتی رہیں گی ۔ ان کی برسی پر ہم ان کی یادوں کے چراغ روشن کرتے ہوےدعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فر ماۓاور ان کے درجات بلند کۓ آمین !

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.