سنئیر صحافی و کالم نگار محسن گورائیہ کے ہمراہ ایک فلاحی کام کیلئے سامان کی خریداری کرنا تھی تو راستے میں پلان بنا کہ ہمیں زیادہ تعداد میں اشیاء چاہئے سٹور کی بجائے شاہ عالم مارکیٹ سے ہول سیل میں سستی مل جائیں گی۔
حمید لطیف ہسپتال، فیروز پور روڈ، جین مندر، انارکلی حتیٰ کہ آئی جی آفس اور سول سیکرٹریٹ کے گرد بھی غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے گاڑی نکالنا محال تھا۔
اتنے میں ایک رکشے والا فل سپیڈ میں کٹ کراتے ہوئے ہماری گاڑی کو ہٹ کر نکل گیا لیکن اس کے خلاف کاروائی کروانے سے قاصر تھے کیونکہ رکشے کی نمبر پلیٹ نہیں تھی۔
نیلا گنبد، میکلوڈ روڈ، نسبت روڈ پر موجود غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے تین منٹ کا سفر بیس منٹ میں طے کرکے میو ہسپتال کی بیک سائڈ سے گزرے تو میو ہسپتال اور لیڈی ایچی ایسن ہاسپٹل کی دیواروں کے ساتھ غیر قانونی تعمیر کی گئی دکانوں کی وجہ سے روڈ بالکل تنگ ہوچکی تھی۔ شاہ عالم مارکیٹ میں ڈی سی لاہور کی انٹی انکروچمنٹ مہم کا اثر نظر آیا لیکن ابھی مذید کریک ڈاؤن کی ضروت ہے۔
لاہور سمیت پنجاب بھر میں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے کی اصل وجہ ٹریفک پولیس کی ہڈحرامی اور مسلسل فرائض سے غفلت ہے۔
شاہ عالم مارکیٹ سے اکبری منڈی تک آنے اور جانے والا راستہ سو فٹ کا ہے لیکن تجاوزات اور غیرقانونی پارکنگ کی وجہ سے بامشکل 15 فٹ سڑک باقی رہ گئی ہے۔دکانداروں نے بدمعاشی اور لاقانونیت کی اخیر کرتے ہوئے دوکانوں کے آگے سڑک پر سامان اس کے بعد اپنی گاڑی پارک کی ہوئی ہے تو باقیوں نے خود سے ٹین کے ڈبے رکھ کر بیچ سڑک نوپارکنگ کے بورڈ لگائے ہوئے ہیں۔
کیا سرکاری سڑک دکانداروں کے باپ کی ہے ؟ جہاں بیچ سڑک دکانداری ہو رہی تو کہیں بورڈ اور رکاوٹیں رکھ کر سڑک کو تنگ کر دیا گیا ہے۔ میں نے محسن گورئیہ کو متحدہ امارات اور چائنہ کی مثال دی جہاں ہم دونوں اکٹھے سفر کرچکے ہیں کہ وہاں کسی دکاندار کی جرات نہیں کہ دکان کے آگے اپنی ذاتی گاڑی بھی کھڑی کرسکے یا نوپارکنگ کا بورڈ لگا سکے۔
دبئی میں بہت دفعہ ایسا ہوا کہ ہم نے کسی ریسٹورنٹ سے ڈنر کرنا ہوتا تو ریسٹورنٹ کے سامنے جگہ نہیں ہوتی تو ساتھ والی دکان کے سامنے پارکنگ والی جگہ پر گاڑی پارکنگ کر کے پہلے پارکنگ فیس پے ہوتی تھی اور بعد میں کھانے کیلئے ریسٹورنٹ میں انٹری۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سڑک سرکاری پراپرٹی ہے نہ کہ کسی دکاندار کے باپ کی ملکیت۔
لاہور پارکنگ کمپنی بہت اچھا کام کر رہی ہے اس کا دائرہ کار نہ صرف لاہور میں بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ پورے پنجاب اور پاکستان میں یہی سسٹم ہونا چاہئے کہ پرائیویٹ ٹھیکیداروں کی بجائے سرکاری پارکنگ کمپنی کام کرے۔ تمام دوکانوں اور پلازوں کے باہر نوپارکنگ کے بورڈ سرکاری قبضے میں لیے جائیں دیگر ممالک کی طرح کسی بھی شاہراہ پر کسی دکاندار کی بدماشی نہیں ہونی چاہئے پارکنگ کمپنی سنگل پارکنگ کروا کر سرکاری فیس وصول کرے اس سے نہ صرف ٹریفک کے مسائل حل ہونگے بلکہ بہت سارے افراد کو روزگار بھی ملے گا اور سرکاری خزانے میں پیسہ بھی آئے گا جبکہ پارکنگ فیس ہونے کی وجہ سے بلاوجہ گاڑیوں کا رش بھی کم ہوگا۔ کسی بھی بازار مارکیٹ میں فری پارکنگ نہیں ہونی چاہئے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ دوکان کے مالک ہوتے ہیں نہ کہ اس کے سامنے والی سڑک ابا جی کے نام کروا لیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس اور انتظامی افسران سرکاری تنخواہیں اور وسائل استعمال کرنے کے باوجود حقیقی مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ٹریفک پولیس کی اس سے بڑی نااہلی کیا ہوگی کہ لاہور اور باقی پنجاب تو درکنار آئی جی آفس اور چیف سیکرٹری آفس کے ارد گرد والی غیر قانونی پارکنگ کا خاتمہ نہیں کروا سکی۔ مریم نواز حکومت کو چاہئے کہ جدید پنجاب کو عملی شکل دینے کیلئے سختی اور آہنی ہاتھوں سے ہر طرح کی غیرقانونی پارکنگ اور تجاوزات کا خاتمہ کروائیں۔ جب تک بینکوں، سکولوں، ہسپتالوں اور دوکانوں کے سامنے سے غیر قانونی تجاوزات، پارکنگ اور پارکنگ بورڈ ختم نہیں کروائے جاتے اس مافیا کا خاتمہ ناممکن ہے۔ٹریفک پولیس کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ چائے کے ڈابے سے لیکر ریسٹورنٹ تک بیچ سڑک کرسیاں اور ٹیبل رکھ کر دکانداری کر رہے ہیں۔ ریڑی مافیا ابھی تک کنٹرول نہیں ہو رہا، چھوٹی بڑی شاہرائیں ریڑی اور رکشہ شاپ بن چکی ہیں۔ تجاوزات کا سامان ہرگز واپس نہیں ہونا چاہئے، ججز سے بھی گزارش ہے کہ آپ تجاوزات کے سامان کی واپسی کا حکم نامہ جاری نہ کریں۔ کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ دن میں کریک ڈاؤن ہوتا ہے تو شام کو وہی تجاوزات واپس آ جاتی ہیں۔ تجاوزات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ صرف ایک دفعہ کے فوٹو سیشن تک محدود نہ رہا جائے بلکہ اس کا فالو اپ بھی لیں۔
حکومت کو اپنی رٹ بحال کرنا ہوگی دکانداروں کو بتانا ہوگا کہ صرف دکان تمہاری ہے نہ کہ سامنے والا فٹ پاتھ اورسڑک۔ کسی کو بھی پارکنگ فیس کے بغیر گاڑی پارک کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ٹریفک پولیس کی کرم نوازی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں پارکنگ کے لیے جگہ نہیں ملتی لیکن والٹ پارکنگ والے اسی جگہ گاڑی پارک کر لیتے ہیں اور ٹریفک پولیس کوئی کاروائی نہیں کرتی اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ٹریفک پولیس ناجائز پارکنگ مافیا کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں۔