بچپن کا دور سنہری دور کہلاتا ہے، ہر شخص اپنے ابتدائی دور کو یاد کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جب بچہ تین چار سال کا ہو جائے تو والدین کو اس کی سب سے بڑی فکر یہ لاحق ہوتی ہے کہ اسے دینی تعلیم پر لگایا جائے تاکہ وہ قرآن اور نماز پڑھنا سیکھ سکے۔ اب بچہ اپنے بھائیوں یا دوستوں کے ساتھ پڑھنے جاتا ہے تو کلاس کا ماحول دیکھ کر وہ چیخ و پکار شروع کر دیتا ہے۔ اگر استاد سمجھ دار ہو تو دو ٹافیاں دے کر لاڈ سے اسے بیٹھا کر قاعدہ پڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ جوں ہی بچہ ٹافیاں لیتا ہے اکثر وہ خاموش ہو کر اردگرد بچوں کو تکنے لگتا ہے۔ اب آہستہ آہستہ رو دھو کر چند ہی دنوں میں بچوں کی عادت بن جاتی ہے اور وہ معمول سے پڑھنے لگ جاتا ہے۔ جیسے ہی اس کی تھوڑی سی عمر بڑھتی ہے وہ سکول میں جانا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح اس کی بچوں اور اساتذہ سے شناسائی ہو جاتی ہے اور یہ ماحول اسے گھر کی طرح لگنے لگتا ہے۔ اسی دوران جو عادات و تعلیم بچہ سیکھتا ہے، وہ ساری عمر سایہ بن کر ساتھ رہتی ہے۔ اگر کلاس کا ماحول اچھا ہو تو بچہ سخاوت، ہمدردی، ایثار اور حسن خلق سیکھتا ہے اور اگر ماحول میں گالم گلوچ، نسلی تفاخر اور مسلک، جماعت اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کا عنصر سیکھایا جائے تو بچہ ساری عمر انھی چکروں میں پڑا رہتا ہے۔
بچے کو ابتدا سے ہی تعلیم کے ساتھ نماز اور ذکر و اذکار کا پابند کیا جائے تو محرم و غیرم محرم رشتے کی پہچان ہو جاتی ہے اور وہ اچھے برے کی تمیز سیکھ جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کریں کہ کلاس کا ماحول صرف بند کمرہ نہیں ہوتا بلکہ بچوں کا مستقبل ہوتا ہے۔ اکثر والدین اور اساتذہ اس معاملے میں غفلت برتتے ہیں تو ان کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ابتدائی نصاب میں بچوں کو اگر درست مخارج کے ساتھ قرآن پڑھنا سیکھایا جائے اور ترجمہ کے ساتھ چند سورتیں اور نماز سیکھائی جائے تو وہ ساری عمر مار نہیں کھا سکتے۔ افسوس اس معاملے میں کوتاہی کے سبب ہماری اکثریت آج درست قرآن، نماز اور چھ کلمے سیکھنے سے محروم ہے۔
پرائمری نصاب میں بچوں کو ابتدائی اردو، انگلش گرائمر بہترین انداز میں سیکھائی جائے تو رٹا سسٹم کا سو فی صد خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔افسوس ہمارے ہاں ابتدائی طور پر بچوں کی درست تعلیم و تربیت نہیں کی جاتی اور جب وہ بگڑ جاتے ہیں تو ان کو سنوارنے کی کوششیں تیز کر دی جاتی ہیں۔ بچے تو سادہ کاغذ کی مانند ہوتے ہیں جو کچھ ان کے دل و دماغ پر نقش کیا جاتا ہے وہی ان کی زبان پر ہوتا ہے۔ اگر ان کو بات بات پر لعن طعن کریں گے، ان پر بے جا سختی کریں گے تو وہ کتنا بھی پڑھ لکھ لیں ؛ ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہیں گے اور یہی احساس کمتری اس کا مستقبل لے ڈوبے گی۔ اگر اساتذہ اور والدین ہمت کریں تو بچوں کو شروع سے ہی ہنر مند اور کفایت شعار بنا سکتے ہے۔ چوں کہ ہر بچہ ابتدائی طور دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے؛ اب وہ ماحول کو دیکھ کر وہی مذہب اور تہذیب اختیار کرتا ہے۔ ایک مفکر کا قول ہے جو کچھ عادت و اطوار آپ بچوں کو ماں کی گود سے پانچ سال تک سیکھاؤ گے، ساری عمر وہ باتیں ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی اور وہ ابتدائی رویے لے کر ہی ساری عمر چلتا رہے گا۔ اگر بچوں کو شروع سے ہی تعلیم کے ساتھ ہنر مند بنا دیا جائے تو چھٹیوں میں اردگرد گھومنے کے بجائے اپنا روزگار سیکھ کر گھر والوں پر بوجھ بننے کی بجائے ان کی کفالت کا انتظام کر سکتا ہے۔ اب جیسے ہی وہ کچھ کمانے کے قابل ہوجائے تو ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی وہ اپنے بل بوتے پر آگے بڑھ سکتا ہے۔
ہنر کے بغیر آج کل تعلیم بے معنی ہے، ہمارے ادارے بے روزگاروں کی فیکٹریاں تیار کر رہے ہیں؛ انھیں چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کا بھی بندوست کریں۔ بڑی بڑی کتابیں رٹانے کی بجائے ہر مضمون کے ابتدائی قواعد اور گرائمر سیکھا کر بچوں کو ٹیوشن جیسی لعنت سے بچایا جا سکتا ہے۔ تعلیم کا مقصد ڈنڈے مارنا نہیں ہوتا، علم و ہنر سیکھانا ہونا چاہیے، بچوں پر رعب و دبدبہ نہیں رحم دلی اور انکساری سے کام لینا چاہیے۔ ان کو احساس کمتری کا شکار کرنے کی بجائے ان کی نفسیات کے مطابق انہوں سیکھانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں مہارت رکھنے والے اساتذہ کو بھرتی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔