ہند بحرالکاہل سے بحیرہ جنوبی چین تک ۔

از : محمّد مہدی

6

پاکستان نیوی امن مشقیں منعقد کروانے کے ساتھ ساتھ اب بحری امن کو یقینی بنانے کیلئے پہلی بار امن ڈائیلاگ 2025 کا بھی انعقاد کر رہی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امیر البحر کی سربراہی میں پاک بحریہ تزویراتی صورت حال پر گہری نظریں گاڑے ہوئے ہیں ۔اور ابھی چند روز قبل ہی کواڈ وزراۓ خارجہ کا اجلاس واشنگٹن میں منعقد ہوا ہے مگر اس سب سے قبل دو دیگر اہم امور کو بیان کرنا چاہونگا. اول تو یہ کہ ایوان جناح اسلام آباد سے شاعر مشرق اور رومانیہ کے قومی شاعر کا مونومنٹ جو بہت عرصے سے موجود تھا چوری ہو گیا ہے اور وه دفتر خارجہ سے رابطہ کر کر کر تھک چکے ہیں مگر کوئی اس معاملہ کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہا ہے ۔دوسرا یہ کہ کچھ عرصہ قبل ایک یورپی ملک کے صدر نے خط بھیجا کہ پاکستان اور اس ملک کے درمیان کون کون سے نئے امور پر تعاون ہو سکتا ہے مگر کوئی اس خط کا جواب ہی نہیں دے رہا ہے حالاں کہ وہ ملک اپنی اہمیت بھی بہت رکھتا ہے ۔ ارباب اختیار کو ان دونوں امور پر فی الفور توجہ دینی چاہئے ۔لیکن اس کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے یا قریبی سمندری گزرگاہوں کے حوالے سے ٹرمپ کے قصر صدارت میں جلوہ افروز ہونے کے ساتھ ہی اہم ترین اقدام یہ سامنے آیا کہ کواڈ ممالک کے وزراۓ خارجہ کا اجلاس واشنگٹن میں وقوع پذیر ہو گیا ۔ امریکی وزیر خارجہ روبیو کا یہ اپنا منصب سنبھالنے کا پہلا ہی دن تھا اور اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اولين مصروفیت کواڈ اجلاس کو قرار دیا ۔ کواڈ چار ممالک کا ایسا اتحاد ہے جو کہ ہند بحر الکاہل کے معاملات پر چین کیلئے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ امریکا کی سربراہی میں جاپان ، آسٹریلیا، انڈیا اراکین کی موجودگی ہی اس امر کو واضح کرتی ہے کہ اس اتحاد کا اصل ہدف چین ہے اور کیوں کہ یہ ہند بحر الکاہل ایسا سمندری علاقہ ہے کہ جس کے اقتصادی اور تزویراتی اثرات سے پاکستان بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا ہے اس لئے اس کواڈ کے اقدامات پر نظر رکھنا پاکستان کی قدرتی مجبوری ہے ۔ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی کواڈ وزراۓ خارجہ اجلاس کو دنیا اس نکتہ نظر سے دیکھ رہی ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی بیجنگ کے حوالے سے بلکل واضح ہے کہ وہ بیجنگ سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگا۔اور چین کے ارد گرد کے ممالک کے چین سے اختلافات کو مزید بڑھاوا یا ھلہ شیری دینے کی جانب گامزن ہوگا ۔ کواڈ کو ایک ایسی تنظیم کے طور پر لیا جاتا ہے جو کہ ہند بحر الکاہل میں اپنے مشترکہ مفادات کا تعين کر چکی ہے اور ان مشترکہ مفادات سے مکمل طور پر وابستگی رکھتی ہے ۔
کہنے کی حد تک تو یہ تنظیم بھی ہر تنظیم کی مانند یہ ہی دعوے کرتی ہے کہ یہ ہند بحر الکاہل میں امن برقرار رکھنے کیلئے اور ہر طرح کی اقتصادی نقل و حرکت کو محفوظ بنانے پر یقین رکھتی ہے مگر حقیقت سب جانتے ہیں کہ یہ نقل و حرکت کو آزادانہ نہیں بلکہ اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلئے متحرک ہیں اور یہ صرف ہند بحر الکاہل تک محدود معاملہ نہیں ہے بلکہ بحیرہ جنوبی چین پر بھی امریکہ اس کے ذریعے ہی اثر انداز ہو رہا ہے ، خیال رہے کہ یہ سمندری گزرگاہ کوئی معمولی اقتصادی نقل و حرکت نہیں رکھتی ہے بلکہ سالانہ تین ٹریلين ڈالر کی تجارت یہاں سے ہوتی ہے ۔ آسٹریلیا اسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اے یو کے یو ایس دفاعی منصوبے کے ذریعے ایٹمی آبدوزیں اور سوپر سونک میزائل حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس جوہری آبدوزوں اور سوپر سونک میزائلوں کے حصول کے حوالے سے حالیہ کواڈ اجلاس کے بعد آسٹریلیا کی وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب سے گفتگو کو انتہائی مثبت قرار دیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آسٹریلیا یہ ایٹمی صلاحیت کی حامل آبدوزوں کو حاصل کرلے گا اور اس خطے میں ایک اور طرح کی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جاۓ گی اور اس ہی سبب سے چین نے اے یو کے یو ایس کے تحت آسٹریلیا کو یہ جنگی صلاحیت فراهم کرنے کے نتائج کے طور پر خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے کے خطرے کی طرف احساس دلايا ہے ۔ کواڈ وزراۓ خارجہ اجلاس کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے فلپائن کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کی اس حکمت عملی کا دوبارہ اظہار کیا کہ امریکہ فلپائن کے دفاع کے لئے پر عزم ہے اور یہ بات کھلی کتاب کی مانند ہے کہ فلپائن اور چین کے مابین بحیرہ جنوبی چین پر شدید اختلافات ہیں اور ایک دوسرے کی بحری افواج گزشتہ کچھ عرصے میں ایک دوسرے کے سامنے آتی رہی ہیں ۔ چین کا بجا طور پر یہ مؤقف ہے کہ اس معاملہ میں اس علاقے سے باہر کو قوتیں مداخلت مت کریں مگر دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ جب ایک اعلی امریکی سفارت کار ڈینيل کرٹن برنک نے بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ کی انڈیا سے شراکت داری قایم کرنے کی حکمت عملی پر تقریر کی تو یہ صاف نظر آنے لگا کہ انڈیا اپنا مؤثر اثر و رسوخ ادھر بھی قایم کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ۔ اور اس ہی سبب سے انڈین نیوی کی تاریخ میں پہلی بار کسی ملک کو ایکٹو ڈیوٹی میزائل کارویٹ جنگی جہاز تحفہ میں دیا گیا اور یہ ملک ویت نام تھا جس سے انڈین عزائم کا بحیرہ جنوبی چین میں باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب ہے تو یہ افسوس کا مقام کے ہمارا ہمسایہ جو کچھ بھی کرتا ہے ہمیں اس کے حوالے سے چوکنا رہنا پڑتا ہے ورنہ ہونا تو یہ چاہئے کہ آزادی کے اتنے عرصے بعد تک ہم دونوں بلکہ تینوں ممالک باہمی اختلافات کو ماضی بنا چکے ہوتے ۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.