پاکستانی تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا رجحان

تحریر, محمد ندیم بھٹی

14

منشیات کی لت پاکستانی تعلیمی اداروں میں ایک بڑھتا ہوا مسئلہ بن چکا ھے۔ نوجوان نسل، جو بے پناہ صلاحیتوں کی حامل ھے، اس خطرے کا شکار ہو رہی ھے۔ منشیات فروش جھوٹے وعدوں کے ذریعے طلبہ کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان منشیات کے استعمال سے طلبہ دو سے تین دن تک جاگ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا ذہن تیزی سے کام کرے گا اور پڑھائی آسان ہو جائے گی۔ بدقسمتی سے، بہت سے نوجوان ان جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں اور نشے کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ خاص طور پر لاہور کے چند اہم تعلیمی اداروں میں نمایاں ھے۔ پنجاب یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS)، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (GCU)، اور فارمین کرسچین کالج یونیورسٹی جیسے معروف ادارے ان منشیات فروشوں کے نشانے پر ہیں۔ ان معتبر اداروں کے باوجود، وہ اپنے کیمپس کو منشیات سے پاک رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو منشیات کے استعمال کا سامنا ھے، جس سے ان کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے اور وہ زندگی بھر کی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے ان منشیات فروشوں کو روکنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن ان کا کردار مایوس کن رہا ھے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے نوجوان نسل کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ھے کہ یا تو یہ ادارے اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے یا بدتر یہ کہ وہ منشیات فروشوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اس غفلت نے منشیات کے کاروبار کو جنگل کی آگ کی طرح بڑھنے اور پھیلنے کا موقع دیا ھے۔
منشیات فروش طلبہ کو اپنی نقصان دہ مصنوعات کی جانب راغب کرنے کے لیے تخلیقی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ وہ دھوکہ دہی پر مبنی دلائل پیش کرتے ہیں کہ منشیات کے استعمال سے طلبہ تعلیمی طور پر بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے۔ یہ جھوٹ ان طلبہ کے دباؤ کو نشانہ بناتے ہیں جو کامیابی کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن بہتر نتائج حاصل کرنے کے بجائے، طلبہ نشے کے عادی ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی پر قابو کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ نشہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ھے، ان کے تعلقات کو نقصان پہنچاتا ھے، اور ان کی تعلیمی کارکردگی کو خراب کرتا ھے۔
والدین اور اساتذہ اکثر اس وقت تک لاعلم رہتے ہیں جب تک کہ بہت دیر نہ ہو جائے۔ جو طلبہ منشیات کی لت کا شکار ہوتے ہیں، ان کے رویے میں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے، جیسے کہ کم حاضری اور تعلیم میں دلچسپی کا فقدان۔ یہ علامات والدین اور معلمین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہونی چاہئیں۔ تاہم، بہت سے معاملات میں، ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے آگاہی کی کمی ہوتی ھے۔
تعلیمی اداروں میں منشیات کی موجودگی صرف قانون نافذ کرنے والوں کی ناکامی نہیں بلکہ معاشرے کی ناکامی بھی ھے۔ لوگ اکثر منشیات کے استعمال کے نشانات کو نظرانداز کرتے ہیں اور اس مسئلے پر کھل کر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ خاموشی اس مسئلے کو بے قابو ہونے کا موقع دیتی ھے، جس سے مزید نوجوانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
منشیات کی لت صرف طلبہ کا ذاتی مسئلہ نہیں ھے؛ یہ پوری قوم کے لیے بحران ھے۔ یہ ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیتی ھے، کیونکہ اس کی وجہ سے نوجوان نسل کی صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ طلبہ جو منشیات کا استعمال کرتے ہیں، اکثر سنگین نتائج کا سامنا کرتے ہیں جو محض نشے کی لت سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کا کردار اس مسئلے کے حل میں کلیدی ھے۔ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کو منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ھے۔ انہیں طلبہ کو منشیات کے خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے اور ان لوگوں کی مدد کرنی چاہیے جو اس مسئلے کا شکار ہیں۔ وزیر اعلی مریم نواز صاحبہ سے گزارش ھے کے طالب علموں کو نشہ کے خطرنا نتا ئج کے بارے میں تفصیلی سے اداروں میں ایسے پروگرام اور کونسلنگ سروسز اور آگاہی فراہم کرنے کے پروگرام ترتیب دینے چاہئیں۔ اساتذہ اور والدین طلبہ کو منشیات کے تجربے سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پولیس کے تھانوں میں کالی بھیڑیں جو منشیات کے کاروبار کو فروغ دینے میں معا ونت کرتی ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے اعلی اقدامات کرنے چاہئیں۔ مریم نواز حکومت حکومت کانوجوانوں کو اس بحران سے نمٹنے میں بڑا کردار درکار ھے۔ پالیسی سازوں کو تعلیمی اداروں میں منشیات کا خاتمہ کرنے کے مسئلے کو ترجیح دینی چاہیے۔ قوانین کو سختی سے نافذ کیا جانا چاہیے، اور اینٹی ڈرگ پروگرامز کے لیے فنڈز فراہم کیے جانے چاہئیں۔
منشیات کی لت صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور اقتصادی مسئلہ بھی ھے۔ اس کا بوجھ نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ھے۔ خاندان علاج اور بحالی کی مالی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، جبکہ ملک ان قیمتی انسانی وسائل سے محروم ہو جاتا ھے جو اس کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے تھے۔
صحت بحالی مرکز کا خصوصی نظام بھی مریم نواز شریف صاحبہ کو ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے۔ نوجوانوں کو اس بڑھتے ہوئے خطرے سے بچانے کے لیے پورے معاشرے کی اجتماعی کوشش درکار ھے۔ سب کو مل کر طلبہ کے لیے ایک محفوظ اور معاون ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ھے۔ پاکستان کے معروف قانون دان شیخ احمد فاروق سے ایک تفصیلی معاشرتی اصطلاحی نشست میں یہ نتیجہ اخز کیا ھے کے پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل اس لڑائی میں اصلاحات کر کے کامیابی پر منحصر ھے۔
تحریر۔
محمد ندیم بھٹی ۔
سینئر صحافی و معاشرتی تجزیہ کار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.