خاندا ن سے باہر شادیاں کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان

احساس کے انداز تحریر؛۔ جاویدایازخان

2

میرۓ کالمز کی ایک مستقل قاریہ ساہیوال سے برخورداری مدیحہ عثمان نے میرے  ایک شائع شدہ کالم جو  “کزن میرج “سے متعلق تھا پر تبصرہ کرتے ہوے لکھاہے کہ  صرف کزن میرج ہی نہیں بلکہ بدلتے  حا لات ،ضرورتوں اور تعلیمی شعور نےکے باعث اب پاکستان اور خصوصی پنجاب میں “خاندان میں ہی شادی “کی صدیوں پرانی روایت دم توڑ رہی ہے۔شہر تو شہر اب دیہات میں بھی والدین اپنے بچوں کے لیے پڑھے لکھے اور معاشی طور  پر مضبوط نوجوانوں کے رشتے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔جس کی باعث پرانہ اور  روائتی خاندانی  سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہے ۔دنیا کے کئی ممالک میں کزن میرج پر  قانونی پابندی کے بعد ایک جانب تو سائنسی  تحقیق  کی وجہ سے کزن میرج   میں کمی واقع ہوئی ہے تو دوسری جانب خاندا ن سے باہر شادیوں کا رجخان بڑھتا جارہا ہے۔اب عوام میں یہ آگاہی پیدا ہو رہی ہے کہ وہ خاندان سے باہر شادیاں کریں تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال معاشرہ فروغ پاسکے  ۔دوسرے اپنی مرضی اور محبت کی شادیوں  میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔والدین بھی اب ذہنی طور بچوں کی مرضی سے شادی کرنے کو بہتر خیال کرتے ہیں ۔ذات  پات اور برادری  کی بات رفتہ رفتہ ماضی بنتی جارہی ہے ۔البتہ معاشی اور تعلیمی طور پر ہم پلہ ہونا ضروری ہوتا ہے ۔انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا شادیوں کا یہ سلسلہ  ماضی کے آپس کے  خاندا نی رشتوں سے بہتر ثابت ہوگا ؟  تو میں نے  اپنی کسی راۓ دینے سے پہلے اس بارۓ میں اس کی وجوہات ، فوائد اور نقصانات پر ایک نظر ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

خاندان سے باہر رشتے کرنے کا رجحان بڑھنے کی کئی سماجی ،معاشی اور ثقافتی وجوہات سامنے آرہی ہیں کہ  تعلیم اور شعور کی بڑھتی ہوئی سطح کی باعث نوجوانوں میں خود مختیاری  اور ذاتی پسند و ناپسند کو اہمیت دینے کا رجحان بڑھا ہے اور وہ خاندان کی روایات کی نجاۓ اپنی خوشی اور منشا کو ترجیح دیتے ہیں ۔لوگ دن بدن شہری طرززندگی ا پنا رہے ہیں  اور دیہات سے شہر کی جانب نقل مکانی  میں اضافہ ہو رہا ہے ۔شہروں میں دیہات کی نسبت مختلف قومیتوں ،مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں سے میل ملاپ  بڑھتا ہے جس سے خاندان کے دائرے سے باہر شادیاں کرنے کا  امکان زیادہ ہو جاتا ہے ۔تعلیم اور شعور روائتی پابندیوں سے آزادی  کی خواہش پیداکرتی ہیں ۔بہت سے نوجوان خاندان کی سخت روایات اور پابندیوں کو چھوڑ کر آزادانہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں  جو خاندان سے باہر شادیوں کی جانب لے جاتا ہے ۔سماجی رابطوں میں اضافی اور آسانی بھی اس رجحان میں مددگار ثابت ہورہی ہے ۔سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے مختلف خاندانوں اور ثقافتوں کے لوگوں کے درمیان رابطے اور تعلقات آسان ہو چکے ہیں ۔جس سے محبت اور شادی کے تعلقات خاندان سے باہر  بڑھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ نوجوان نسل محبت اور جذباتی تعلق کو زیادہ اہمیت دیتی ہے ایک اور وجہ معاشی خود مختیاری کی بھی دکھائی دیتی ہے ۔آج کے دور میںبرسرروزگار  خواتین اور مرد دونوں کی معاشی خود مختیاری بڑھنے کی وجہ سے وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگے ہیں چاہے وہ خاندانی رواج کے مطابق ہوں یا نہ ہوں ؟  روائتی شادیوں کے مسائل بھی اس رجحان کو بڑھا رہے ہیں ۔خاندان کے اندر شادیوں سے جڑے مسائل جیسے خاندانی سیاست ،غیر ضروری دباؤ اور رشتے داروں کی نکتہ چینی کے مسائل سے بچنے کے لیے خاندان سے باہر رشتہ کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے  دوسری جانب پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کی جانب سے دیے جانے والے شعور نے بھی خاندانی دباؤ  کم کردیا ہے ۔خاندان کے اندر خصوصی کزن میرج میں جینیاتی  بیماریوں کا خظرہ زیادہ ہونے کا ادراک بھی اس رجحاان کو بڑھا رہا ہے ۔گلوبلائزیشن ،مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے درمیان ہم آہنگی نے بھی ان شادیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔یہی عوامل مجموعی طور پر اس رجحان میں اضافہ کا باعث ہیں تاہم اس کا انحصار ہر فرد اور خاندان کی روایات ،تعلیم اور سوچ پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔ گو یہ رجحان سماج میں کئی مثبت تبدیلیاں لاسکتا ہے جیسے مختلف ثقافتوںاور برادریوں کے درمیان تفریق میں کمی  لیکن  بعض اوقات اس سے روائتی اور خاندانی کشیدگی بھی جنم لے سکتی ہے  جو   بسا اوقات ذہنی اور جسمانی تشدد کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے ۔

خاندان سے باہر شادی کے فوائد اور نقصانات مختلف سماجی ثقافتی اور جذباتی پہلووں پر مبنی ہو سکتے ہیں ۔ذیل میں  ان کے اہم پہلووں پر روشنی ڈلی جاسکتی ہے ۔مثلا” اگر فوائد پر غور کریں تو خاندان سے باہر شادی کرنے سے مختلف ثقافتوں ،روایات ،عادات اور زبانوں کو سمجھنے اورر اپنانے کا موقع ملتا ہے جو زندگی میں   ثقافتی تنوع اور وسعت پیدا کرتا ہے ۔ تعلیمی اور معاشی طور پر ہم پلہ اور برابری کے رشتے مل جاتے ہیں ۔سائنسی نقطہ نظر سے یہ شادیاں جینیاتی بیماریوں سے  قدرے  کم یا محفوظ ہوتی ہیں ۔ا ن شادیوں کی باعث نئے خاندانوں اور  نئے معاشرتی تعلقات کو جوڑنے میں مدد ملتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں روائتی  وٹے سٹے کی شادیوں کے تلخ تجربات نے بھی  لوگوں کو خاندان سے باہر جانے پر مجبور کردیا ہے ۔   خاندان سے باہر شادیوں کا یہ عمل ذات ،رنگ ،نسل ،قوم اور برادری کے فرق کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے جو معاشرتی ہم آہنگی  کو فروغ دیتا ہے ۔اب تو بیرون ملک  یا دوسری اقوام میں  رنگ ونسل سے بالاتر شادیوں کا کلچر بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

دوسری جانب اگر  خاندان سے باہر شادی کے نقصانات پر نظر ڈالیں  تو  ثقافتی اختلاف ، انفرادی یا اجتماعی خاندانی مخالفت یا ناراضگی ،زبان ،اور سم ورواج  کو اپنانے میں مشکلات ،سماجی دباؤ اور تنقید کا سامنا، میاں بیوی اور ان کے خاندانوں  کی ایک دوسرے کو سمجھنے میں مشکلات ، خاندانی مزاج میں فرق اور بعض اوقات معاشی مسائل  جیسے نقصانات درپیش ہوتے ہیں ۔ دوسرے کلچر یا ماحول  میں رہتے ہوۓ تنہائی اور اپنے لوگوں کی کمی محسوس ہو سکتی ہے ۔کزن میرج کے نقصانات تو سائنسی طور پر پہلے ہی منظر عام پر  آ چکے ہیں ۔آپس کی رشتہ داریاں اور شادیاں کم ہونے سے خاندان میں رشتوں کے مسائل  اور اختلافات بھی بڑھ سکتے ہیں ۔ بعض اوقات خاندانی تعلقات محدود یا ختم ہونے کے خدشات بھی ہوتے ہیں ۔بسا اوقات مذہبی اختلافات بھی ہو سکتے ہیں ۔ واراثتی معاملات بھی وجہ تنازع ہو سکتے ہیں  کیونکہ بہت سی خاندانی شادیاں وراثتی جائداد بچانے کے لیے بھی کی جاتی ہیں ۔لیکن یہ نقصانات ہر صورت میں لاگو نہیں ہوتے اور بعض جوڑے ان چیلنجز اور مشکلات کو کامیابی سے حل کر لیتے ہیں کیونکہ محبت ،افہام و تفہیم  اور صبر کسی فرد کی بھی ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنا سکتا ہے ۔

بہرحال  شادی زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ ہے جس کا تعلق صرف دو افراد یا دو خاندانوں سے ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں سے بھی ہوتا ہے  اس لیے یہ فیصلہ خاندانی دبأ اور جذباتیت  سے ہٹ کر  بڑی سمجھداری سے کرنا چاہیے ۔خاندان سے باہر شادیوں کے فوائد اور نقصانات  کا انحصار افراد کی ذاتی ترجیحات ،ان کے خاندان  کے رویے اور سماجی ماحول پر ہوتا ہے ،اگر سمجھ داری  ،صبر ،اور ایک دوسرے کے جذبات  کی قدر کی جاۓ تو یہ شادیاں کامیاب ہوسکتی ہیں اور دونوں خاندانوں کے لیے مثبت تجربہ بن سکتی ہیں ۔کہتے ہیں کہ خاندانی عادتیں ،مزاج  اور بیماریاں  آگے منتقل ہوتی رہتی ہیں اس بنا پر  اپنے بچوں اور آنے والی نسل کی بہتری اور مستقبل کے لیے خاندان سے باہر شادی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ  خاندان اور کزنز سے شادی نہیں کرنی چاہیے ۔اسلام دین فطرت ہے اور  ہمارا دین ا سلام خاندا ن میں شادیوں   کو  بھی بھر پور فروغ دیتا ہے ۔جس کا عملی مظاہرہ  ہمارے پیارے نبی ؐ اور صحابہ کرام کے کئے جانے والے بےشما رشتے  اور شادیاں ہیں جو  آج بھی  ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ  ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.