آج کل شادیوں کا “پیک سیزن” چل رہا ہے۔ نومبر دسمبر اور جنوری میں یہ حال ہوتا ہے کہ جمعہ، ہفتہ، اتوار اور پیر کے دن کم از کم تین سے چار جگہ سے دعوت ہوتی ہے ۔بھاگم بھاگ سلامی کا لفافہ ڈراپ کرنے کی ریس ہوتی ہے۔ میرے جیسے مڈل کلاس چھوٹی شادیوں میں دس ہزار، دوستوں،افسران اور سیاسی شادیوں میں بیس ہزار جبکہ انتہائی قریبی دوست کی شادی میں پچاس ہزار سلامی دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی حیثیت کے مطابق حق ادا کر دیا۔ ہمارے خاندان کی شادیوں میں ہمیشہ امی ہی یہ فریضہ ادا کرتی رہی ہیں، جہاں بھی کچھ دینا ہوتا امی ابو کیش کی بجائے رشتہ داروں کو گھریلو استعمال کی کوئی نہ کوئی چیز گفٹ کر دیتے۔اپنی ہوش میں دونوں چچا اور بڑے بہن بھائیوں کی شادی میں کسی رشتہ دار یا دوست سے سلامی/نیوندرہ نہیں لیا۔ والد صاحب شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے ہیں اور انکا بہت کلئیر موقف ہے کہ میں جتنے دوستوں کو افورڈ کرسکتا ہوں اپنی حیثیت کے مطابق انکو اپنی خوشی میں شرکت کیلئے بلاتا ہوں، پیڈ کھانے پر نہیں۔
میں اکثر دوستوں کیلئے ڈنر یا سنڈے برنچ رکھتا ہوں تو ایک دن ایک دوست نے پوچھا کہ بھائی پر ہیڈ کلیکشن/کنٹریبیوشن کیا ہے۔ میں اس کے سوال پر شدید حیران ہوا اور انہیں کہا کہ آپ دعوت نامے کو غور سے پڑھیں، واضح لکھا ہے کہ میں بطور میزبان آپ کو دعوت دے رہا ہوں۔ جہاں تک کلیکشن یا کنٹریبیوشن کی بات ہے میرے ابا جی نے کبھی شادیوں کے موقع پر سلامی کا لفافہ قبول نہیں کیا تو میں کھانے کی دعوت پر کنٹری بیوشن کا کیسے سوچ سکتا ہوں۔ عمران خان اور بعد ازاں پی ڈی ایم حکومت میں اہم عہدوں پر فائز افسران کے بچوں کی شادیوں پر اکٹھی ہونی والی چار سے پانچ ارب کی سلامیوں کے قصے ہفتوں زبان زد عام رہے۔ اس مشہوری نے افسران اور سیاستدانوں کو پیسہ اکٹھا کرنے کی نئی راہ دکھا دی۔تھوڑا عرصہ قبل لاہور میں ایک آفیسر کی شادی کیلئے گیسٹ لسٹ بن رہی تھی تو وہ ہر ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک، ڈویپلرز اور بڑے بڑے کاروباری حضرات کے نام لکھ رہا تھا۔ حتیٰ کہ ان کاروباری شخصیات کے بھی جن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی صرف گڈمارننگ کے میسجز والا تعلق تھا۔ لاہور کے ولیمے کیلئے کراچی ٹو خیبر تمام اہم شخصیات کے نام لکھے جا رہے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ آپ اپنے بیج میٹ کے نام کیوں نہیں لکھ رہے ؟ اس نے فوراً سے پہلے جواب دیا کہ فقرے ہیں انہوں نے کیا دینا۔ یہ تو ذاتی شادی کی بات ہے لیکن اصل کاروباری ماڈل یہ ہے کہ کوئی بھی افسر جب کسی اچھی پوسٹنگ پر ہوتا ہے تو وہ اپنے بہن بھائی حتی کہ کزن، بھتیجی اور بھانجے کی شادی پر بھی ہر کسی کو صرف اس لیے انوائٹ کرتا ہے کہ سلامی اکٹھی ہوجائے گی۔ آئی جی، چیف سیکرٹری، وزیراعظم آفس، ایوان صدر، وزیراعلیٰ آفس، اے سی، ڈی سی اور ڈی پی او سمیت اہم پوسٹنگ کے دوران مذکورہ افسران بہن بھائی اور دیگر رشتہ داروں کی شادی کے دعوت نامے بھی امیر دوستوں کو ہول سیل کے حساب سے بانٹتے ہیں۔ کیونکہ ان سیٹوں پر دوست اور ساتھی افسران بھی کم از کم بیس ہزار سے لیکر ایک لاکھ تک جبکہ کاروباری شخصیات دس لاکھ سے زائد کیش کے بینک چیک، لاکھوں روپے کے قیمتی جیولری سیٹ، نئی گاڑی، پلاٹوں کے الاٹمنٹ لیٹر، بیرون ملک ہنی مون اور عمرہ پیکچ گفٹ کرتے ہیں۔ یوں شادیاں بھی پیسے اکٹھے کرنے کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ لاکھوں روپے کی سلامی دینے والے اس انویسٹمنٹ کی ریکوری کیلئے کوئی کام لیکر جاتے ہیں تو اگر ہوجائے تو وہ ایک اور گفٹ دے آتا ہے نہ ہو تو ہر جگہ اس کی احسان فراموشی کی قصے عام کرتا ہے۔ اس لیے افسران کو مشورہ ہے کہ آپ کے پاس کمانے کیلئے ہر روز مواقع ہوتے ہیں کم از کم شادی کے یادگار موقع کو کمائی کا اڈا بنا کر ان ذہنی غریب پراپرٹی ڈیلرز کو بلا کر ساتھی افسران اور معززین کو تو شدید رش میں خوار نہ کیا کریں۔ کاروباری اور عہدوں کی شادیوں کا دوسرا پہلو بھی جدید دور کا فیشن بن چکا ہے۔ جہاں کاروباری شخصیات اپنی کاروباری ضرورت کے مطابق پولیس سروس آف پاکستان، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، کسٹم، ایف بی آر اور پی ایم ایس افسران میں سے بہو اور داماد تلاش کرتے ہیں۔ سی ایس ایس کے باقی گروپس کاروباری حضرات کیلئے فائدے کا سودا نہیں ہوتا اس لیے کاروباری برادری میں انکی ڈیمانڈ نہیں ہوتی۔
بیج میٹ کے ساتھ شادیوں میں زیادہ تر محبت اور پسند کا عنصر غالب ہوتا ہے جو کہ ایک مثبت پہلو ہے کہ آپ اپنی ہم آہنگی والے جیون ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن بیوروکریسی میں بھی بہت ساری شادیاں سانولی اور قبول صورت کے ساتھ بھی صرف اس لیے کی جاتی ہیں کہ اس کی سلیکشن پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس یا پولیس سروس آف پاکستان میں ہوگئی ہے۔ جب شادیاں بھی کاروباری ہوچکی ہیں تو پھر 22ہزار سرکاری افسران اور بیوروکریٹس کی دوہری شہریت پر حیرانگی کیسی۔ افسران کی دوہری شہریت پر حیرانی سے زیادہ حکمرانوں کی بے بسی پر دکھ ہوتا ہے کہ وہ اس لاقانونیت کے خلاف ان بائیس ہزار کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ جب ان بائیس ہزار کا احتساب نہیں ہوگا تو پھر اگلے سال کئی ہزار نئے “ڈیول نیشنل” افسران اہم پوسٹوں پر پر براجمان ہوکر، مال کما کر باہر بھیج رہے ہوں گے۔