ٹک ٹاک کے نظارے

تحریر: خالد غورغشتی khalidghorghushti@gmail.com

2

شب و روز اُچھلتے کُودتے یہ نظارے ہیں ٹک ٹاک کے، جہاں آپ کو ملیں گے ایسے ایسے عجیب وغریب لوگ کہ آپ چہرہ تکتے رہ جائیں گے۔ کیا بچے، کیا بچیاں، کیا نوجوان کیا بوڑھے، کیا خواتین سبھی آپ کو ناچتے گاتے اور اُچھلتے کُودتے ملیں گے۔ یہ لوگ بالی وڈ، لالی وڈ اور ہالی وڈ کو مات دیتے ہر حرام و حلال اور اچھے برائی کی تمیز سے آزاد شور و شغل کرتے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ ان کا مقصد فقط چند سکوں کی خاطر ہلہ گلہ کرنا ہوتا ہے۔

یہ لوگ اپنی شہرت کے لیے کہیں بادلوں، کہیں ہواؤں، کہیں صحراؤں، کہیں سمندروں تو کہیں عبادت گاہوں کی ویڈیوز بناتے قدرت الہی اور شعائر اسلام کا مزاق کرتے تو کہیں راہ زنی، عشق معشوقی اور دھوکے دہی کے نئے نئے طریقے متعارف کرواتے نظر آتے ہیں۔

ان ویلاگرز نے سسٹرالوجی کی ایک شاخ مُتعارف کروا رکھی ہے، جس میں برینڈڈ جوتے، کپڑے دیدہ زیب گاڑیاں اور مکانات کی نمائش کرتے ہیں۔ جس سے غریب گھرانوں کے خواتین و حضرات بھی یا احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یا اس دھندے میں جلد ہی ملوث ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں نہ محنت، نہ مزدوری، نہ کوشش کرنی پڑتی ہے اور بس ویڈیوز بناتے جاؤ اور پیسہ کماتے جاؤ۔ وہ کہتے ہیں نا، مال مفت بے رحم مال ہوتا ہے؛ جسے کون چھوڑتا سکتا ہے؟

ان ویلاگر کا مقصد چُوں کہ فقط ڈالرز کا حصول ہوتا ہے اس لیے یہ ہر حلال و حرام، گناہ و ثواب اور جرائم کی بندشوں سے آزاد ایسی ایسی ویڈیوز بناتے ہیں کہ کئی خواتین برہنہ جسم، کئی مرد شرعی احکامات کا مزاق اُڑا کر شہرت کماتے ہیں۔

بسا اوقات یہ ویلاگرز ایسی ایسی شرم ناک وڈیوز بناتے ہیں کہ وہ قانوں و اخلاق کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی ایسے سانحے بھی ہوئے ہیں، جس پر پوری قوم افسردہ ہے لیکن یہ تو ایسے موقع کو کیش کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں اور ایسی ایسی ویڈیوز بناتے ہیں کہ جن پر ان کی شرعی و قانون گرفت ہوسکتی ہے لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کاروائی ممکن نہ ہوسکی۔ ہمارا قانون نافذ کرنے والوں اداروں سے بھرپور مطالبہ ہے کہ ایسے انتظامات کریں، جو ملک کے قانون یا شریعت کے خلاف ویڈیوز بنائے، اس کو کڑی سے کڑی سزا اور بھاری جرمانہ عائد ہو تاکہ ان شر پسند عناصر کا خاتمہ ہوسکے۔

ایک ویلاگر گیارہ بجے اٹھتا ہے، ناشتے کی ویڈیو بناتا ہے، پھر دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کی ویڈیو بناتا ہے، جب دیکھتا ہے کہ مشہوری نہیں مل رہی تو آہستہ آہستہ گھر کی خواتین سامنے لاتا ہے۔ اب وہ آٹا گوندھ رہی ہے تو ویڈیو، چائے بنا رہی تو ویڈیو، بچوں کو دودھ دے رہی ہے یا کھانا بنا رہی ہیں تو ویڈیو، اگر سو رہی ہیں تو ویڈیو، جاگ گئی ہیں تو ویڈیو، گھر میں مہمان آگئے تو ویڈیو، الغرض اپنی عزتوں کا سر عام کھلواڑ کر کے پیسے کمائے جا رہے ہیں۔ جن میں سے اکثریت کے پاس نہ تعلیم ہے، نہ ہنر، نہ کوئی تعمیری سوچ، یہ کم فہمی میں ایسے ایسے کام کر گزرتے ہیں کہ بعد میں اس کے بھیانک نتائج پورے سماج کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

چند سکوں کے لیے یہ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ پہلے اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو سوشل میڈیا پر لاتے ہیں اور جب وہ مشہور ہو جاتی ہیں تو ان کی جسمانی نمائش کرتے بھی نہیں ہچکچاتے۔ حتی کہ کچھ خواتین مشہوری یا چند سکوں کے لالچ کی خاطر اپنی ذاتی ویڈیوز لیک کرواتی ہیں، تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ لائکس اور فالووز ملیں اور وہ جلد از جلد امیر کبیر ہو کر مزید عیاشی کر سکیں۔ سُننے میں آ رہا ہے کہ اس کے پیچھے بعض ملکی و غیر ملکی سطع کی مافیاز بھی ملوث ہیں، جو چند سکوں کا لالچ دے کر ٹک ٹاک لائیو، ویلاگز یا لیک ویڈیوز کے بہانے ہماری نسلوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں۔ اگر یہ حقیقت ہے تو اس کی چھان بین کر کے ان مافیاز کی سرکوبی کی جائے۔ ہمارا سوشل میڈیا کنٹرول کرنے والے اداروں سے بھرپور مطالبہ کہ وہ ایسی پالیسی مرتب کریں کہ غیر ملکی اکاؤنٹ، سمیں اور غیر اخلاقی، غیر معیاری اور غیر قانونی مواد شئیر کرنے والوں کی بیخ کنی ہوسکے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.