مذاکرات اور عالمی دباؤ

اورنگزیب اعوان

2

سیاست میں مذاکرات کو سب سے موثر ہتھیار تصور کیا جاتا ہے. سیاسی مخالف کو اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے. نظریہ اور سوچ میں فرق کی وجہ سے ہی اختلافات جنم لیتے ہیں. ان اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے کی سوچ کا احترام لازمی ہے. آجکل حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں. شاید دونوں فریقین کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے. کہ طاقت کے مظاہرے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا. سوائے معصوم اور بیگناہ لوگوں کا خون بہانے کے. تحریک انصاف کے کارکن بھی بہت معصوم ہیں. قیادت ہر بار ان سے ہاتھ کر جاتی ہے. سانحہ 9 مئ ہو یا 26 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنے کا معاملہ. تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنایا ہے. خود موقع سے راہ فرار اختیار کر جاتے ہیں. کارکنوں کو سیکورٹی فورسز کے رحم کرم پر چھوڑ جاتے ہیں. 9 مئی کے دلخراش واقعات کو پوری قوم نے کیمرے کی آنکھوں سے دیکھا تھا. کہ کس طرح سے کور کمانڈر لاھور کی رہائش گاہ میں شرپسندوں نے توڑ پھوڑ کی. اور اس تاریخی عمارت کو آگ لگا کر جلا دیا گیا . میانوالی میں پاکستان ائیر فورس کی بیس پر حملہ کیا گیا. اور وہاں توڑ پھوڑ کی. ملک بھر میں پاک فوج کے شہداء کی یاد گاروں کی بے حرمتی کی گئی. راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے ہیڈ آفس پر حملہ کیا گیا. ان تمام واقعات میں ملوث لوگوں کو پکڑ کر ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے. اور ان کو قرار واقعی سزا سنائی گئی. اسی طرح سے 26 نومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی کرتے ہوئے. رینجرز اہلکاروں کو گاڑی کے نیچے کچل کر شہید کر دیا گیا. اس پر تحریک انصاف کی قیادت نے خوشی کے شادیانے بجائے. اور ڈی چوک کو فتح کرنے کا اعلان کیا. وہاں پہنچ کر پارٹی قیادت بشمول بشرہ بی بی اور وزیراعلٰی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈا پور نے جذباتی تقاریر کی. جس کے نتیجہ میں ان کے کارکن مزید انتشار میں آئے. سیکورٹی فورسز کی جانب سے بار بار انہیں وارننگ دی گئی. کہ ڈی چوک اور اس سے ملحقہ علاقہ کو فی الفور خالی کر دے. مگر ان کی بات نہ مانی گئی. جس کے نتیجہ میں علاقہ کو شر پسندوں سے خالی کروانے کے لیے سیکورٹی فورسز نے آپریشن کیا. آپریشن سے قبل تحریک انصاف کی تمام قیادت موقع سے فرار ہوگئی. کارکنوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی. کہ وہ کیا کرے. کیونکہ انہیں گائیڈ کرنے والا وہاں کوئی نہیں تھا. کچھ دیر میں ڈی چوک سے مظاہرین منتشر ہو گئے. مگر تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے کارکنوں کی ہلاکت کا شوشہ چھوڑ دیا. کہ ہمارے پانچ سو سے زائد کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے . مگر آج تک وہ اپنے کسی کارکن کی تصویر یا ڈیٹا نہیں دے سکے. جو سکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں شہید ہوا ہو. اگر تحریک انصاف کی بات کو سچ مان بھی لیا جائے. تو وہ کس منہ سے حکومت سے مذاکرات کر رہی ہے. یہ سوال ان کے کارکنوں کی جانب سے اپنی پارٹی قیادت سے بنتا ہے. فارم 47 کی جعلی حکومت سے وہ مذاکرات کیوں کر رہے ہیں. کیا انہوں نے اس حکومت کو حقیقی منتخب حکومت تسلیم کر لیا ہے. ایک طرف 9 مئی کے واقعات میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو سزائیں سنائیں جا رہی ہیں. اور پانچ سو کارکنوں کی ہلاکت کی تصدیق پر زوردیا جا رہا ہے. دوسری طرف پارٹی قیادت اپنے اور چئیرمین تحریک انصاف عمران خان پر لگے الزامات کو ختم کروانے کے لیے مذاکرات کر رہی ہے. اگر یہی سب کچھ کرنا تھا. تو پھر کارکنوں کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا. اگر اب بھی کارکن تحریک انصاف کی منافقانہ سیاست کو نہیں سمجھے. تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے. تحریک انصاف کی سیاست ہی یوٹرن اور منافقت پر چل رہی ہے. حکومت کے ساتھ بھی یہ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں. حکومت کو مذاکرات میں مصروف کرکے دوسری طرف عالمی سطح پر شوشہ چھوڑ رہی ہے. کہ اس کے ساتھ بہت زیادتی کی جا رہی ہے. وہی امریکہ جس کو absolutely not کہنے پر اس کے کارکن خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے. انہوں نے اپنی گاڑیوں کے پیچھے یہ الفاظ کنندہ کروا لیے تھے. اب absolutely yes کہنے کو اپنی سیاسی حکمت عملی اور فراصت کا نام دے رہے ہیں. یہ بیچارے معصوم کارکن بھی سمجھ نہیں پا رہے. کہ آخر کار کیا کیا جائے. پارٹی قیادت روز بیانیہ بدل لیتی ہے. انہیں اس نئے بیانیہ کا دفاع کرنا پڑتا ہے. اس موقع پر ایک تاریخی واقع یاد آگیا. ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہر الیکشن پر سیاسی جماعت تبدیل کر لیتے تھے. ان کے قریبی دوست و احباب بھی ان کے ساتھ اسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار کرتے تھے. ایک دفعہ انہوں نے نئی سیاسی جماعت کو جوائن کیا. اور اس کے انتخابی جلسہ میں شرکت کی. دوست و احباب کی بھی کیثر تعداد ساتھ تھی. جب اس جماعت کے کارکن نعرہ بازی کرتے. تو ان کے دوست و احباب معقول جواب نہ دے پاتے . جس پر سیاسی جماعت کے سربراہ نے ان سے شکوہ کیا. کہ آپ کے لوگ سنجیدہ نہیں. جلسہ سے فارغ ہوکر جب وہ اپنے ڈیرہ پر پہنچے. اور کھانے کے وقت پر سب دوست و احباب اکٹھے ہوئیں . تو انہوں نے ان سے سخت الفاظ میں ناراضگی کا اظہار کیا. کہ آج تمھاری وجہ سے میری بےعزتی ہوئی ہے. جس پر دوست و احباب کا دلچسپ جملہ آج بھی یاد ہے. سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ آپ بھی سیاسی جماعت بدلنے سے پہلے ہمیں بتا تو دیا کرے. ہم لوگ کم از کم اس جماعت کے نعرے ہی یاد کر لیا کرے. یہی حال تحریک انصاف کے کارکنوں کا ہے. پارٹی قیادت اپنا بیانیہ بدلتے وقت انہیں اعتماد میں نہیں لیتی. جس کی وجہ سے یہ بیچارے نئے بیانیہ کا دفاع بھی نہیں کر پاتے. رات کو بیانیہ کچھ ہوتا ہے. اور صبح کو کچھ. امریکہ، برطانیہ، یورپی ممالک کو جتنی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.