منزل کا راستہ بتانے والے اور اس راستے پر چلنے کا ڈھنگ سکھانے والے کارواں کے سالار کہلاتے ہیں اور محنت، ریاضت، علمی استعداد، قابلیت، وابستگی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بدولت منزل لا کر ان کے قدموں تلے رکھ دی جاتی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہر کوئی گو مگو کی کیفیت میں تھا۔ انگریزوں کے ساتھ مل کر چلا جائے۔ ہندوؤں سے اتحاد کرکے انگریزوں کو نکال باہر پھینکا جائے یا پھر ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا جائے۔ ہندو مسلم قیادت کی سوچ میں بھی اچھا خاصا اختلاف رائے پایا جاتا تھا۔ مذہبی قیادت مسلکوں کی بنیاد پر اپنی اپنی رائے رکھتی تھی۔ احرار کے قائدین کا بھی ایک اپنا موقف تھا۔ جاگیردار اور سرمایہ دار اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ادلتے بدلتے رہتے تھے۔ روشن خیال لوگوں کی رائے میں بھی کوئی خاص کلیریٹی نہیں تھی تاریخ کا پہیہ مسلسل چل رہاتھا۔ فکری اساس میں روز بروز مسلسل پختگی آرہی تھی۔ دنیا کے حالات بھی بڑی برق رفتاری سے بدل رہے تھی۔ پہلی جنگ عظیم نے تو پوری دنیا کا نقشہ بدل دیا اور اور بے چارے مسلمان۔ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ اور مذکورہ جنگ کے فاتحین نے بیٹھ کر اپنی مرضی سے ترکی کے حصے بخرے کردیئے۔ سامراجیت مزید طاقت پکڑ گئی۔ ہندوستان کے مسلمان اس ساری صورتحال سے کیسے بیگانہ رہ سکتے تھے۔ تحریک خلافت اور ہندوستان کی سیاست میں ہلچل۔ علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم جیسے راہنما معتدل سوچ کے حامل تھے اور مسلمانوں کی فکری لحاظ سے تربیت کو ضروری سمجھتے تھے۔ مکالمہ کی سیاست پر یقین رکھتے تھے اور بدلتے حالات کے پیش نظر اپنی حکمت عملی وضع کررہے تھے۔ اس سلسلے میں دہلی تجاویز (1927)، قائد اعظم کے چودہ نکات (1929)اور علامہ محمد اقبال کا خطبہ الہ آباد (1930) قابل ذکر ہیں۔ راہنما کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ حالات کی نبض پر مسلسل ہاتھ رکھتا ہے اور حالات کے اتار چڑھاو کو مدنظر رکھ کر علاج تجویز بھی کرتا ہے اور علاج کو یقینی بھی بناتا ہے۔ بدقسمتی سے 1937 میں علامہ محمد اقبال کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد ساری ذمہ داری کا بوجھ قائد اعظم محمد علی جناح کے کندھوں پر آگیا۔ انہوں نے ایک طرف سماج میں جا کر اپنی عوام دوستی کا عملی ثبوت دیا اور مسلمانوں کا مسلم لیگ پر اعتماد بحال کیا اور وقت کی نزاکت کے پیش نظر دوقومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر پاک وہند کی تقسیم کا مطالبہ کیا اور پھر مسلسل جہد مسلسل، نیک نیتی اور محنت سے قیادت کرنے کا حق ادا کر دیا
مسٹر جناح کے سیاسی فکر کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دلیل سے بات کی۔ دلیل کا جواب بھی دلیل سے دیا۔ حکومت وقت کو مدلل انداز سے بات کر کے نیچا دکھایا۔ ہندو قیادت پر اپنی علمی اور فکری برتری ثابت کی۔ یہاں تک کہ نہرو اور گاندھی جیسے لوگوں نے بھی مجبور ہوکر تقسیم ہند کے حق میں ہتھیار پھینک دیئے۔ یقیننا فہم وفراست کا کوئی جوڑ نہیں ہوتا ہے۔ جلاو گھراو کی سیاست کا ان کے ہاں کوئی وجود نہیں تھا حالانکہ وہ چاہتے تو 1940 کے بعد جا بجا آگ لگوا سکتے تھے۔ 1940 سے 1947 تک کا سفر مکالمے اور مذاکرات کا سفر ہے اور اس سفر میں قائد اعظم بتدریج معاملات اور حالات کے پیش نظر دیکھ بھال کر آگے بڑ رہے تھے۔ بلاشبہ انگریز نے ہندوستان کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن ہندو ہندوستان کی تقسیم کے سرے سے ہی خلاف تھے۔ قائد اعظم کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ انگریزوں کے بعد چونکہ ہندو عددی لحاظ سے اکثریت میں ہیں لہذا مسلمانوں کا برصغیر میں رہنا مشکل ہو جائیگا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ہاں پاکستان ناگزیر تھا اور پھر پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا نقشے پر ایک حقیقت بن کر ابھر آیا۔ یہ ہے ہمارے قائد کی حکمت عملی اور اس کے نتیجے میں سکسس سٹوری۔ اس سٹوری کو ابھی آگے چلنا تھا اور اس کا کلائمکس بھی بڑا ہی مختلف ہونا تھا لیکن افسوس 11ستمبر 1948 کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ کائنات کا ایک اپنا نظام ہے اور ارتقاء کا بھی ایک اپنا سلسلہ ہے۔ تخلیقات میں تنوع کی بدولت خالی جگہ پر ہو جاتی ہے۔ کاش نئے آنے والے کی تعلیم تربیت اور فہم وفراست حالات کے مطابق ہو اور وہ اپنے پیش رو کے نظریات اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اپنے آپ کو وارث سمجھے اور اس ورثے کا امین بن جائے۔ پاکستان کے تاریخی پس منظر کے پیش نظر یہ رائے قائم ہو چکی ہے کہ ان جیسا ان کے بعد کوئی بھی نہیں آسکا۔ آج کی نسل کو اس رائے کو تبدیل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر پاکستان کو آگے لے کر جا نا بہت مشکل ہے ہم نے پہلے بھی آدھا پاکستان گنوادیا ہے۔ لہذا شور شرابے، افراتفری، ہیجان، جنون، ماردھاڑ، ہلڑبازی، اشتعال، نفرت اور خون خرابہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ ملک ان ساری چیزوں کا اب متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہر شخص جس کا خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ہے وہ قائد اعظم کے فرمودات کی کتاب خرید لے اور یکسوئی سے پہلے اس کا مطالعہ کرے اور پھر اس پر پوری نیک نیتی سے عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے۔ یقییننا ان فرمودات میں پوری عوام، بیوروکریسی، عدلیہ، مقننہ، سیاستدانوں، فوج اور پھر سب کے لئے دعوت فکر ہو گی۔ اس دعوت کی بدولت سوچ میں تبدیلی آئے گی، خیالات میں پختگی آئے گی، مزاجوں میں سنجیدگی پیدا ہوگی، اپنے ملک وقوم سے وفاداری کے جذبات پیدا ہونگے۔ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کا ڈھنگ آجائے گا۔ ملکی وسائل کے استعمال کرنے کے سلسلے میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگی۔ حکومت اور مخالف بینچوں پر بیٹھنے والوں کو سیاسی شعور آجائیگا۔ عوام کی راہنمائی کے اصول ہم سب پر واضح ہو جائینگے۔ بلکہ مختصرا چودہ طبق روشن ہو جائینگے اور شاید اب آکر ہمیں