سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور: ایک المناک یاد اور عزم کا عہد

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

4

16 دسمبر 2014 کی صبح، پشاور کی سرزمین نے ایک ایسا دردناک سانحہ دیکھا جس کی گونج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں محسوس کی گئی۔ آرمی پبلک اسکول، جو بچوں کے خوابوں اور مستقبل کی تعمیر کا مرکز تھا، اس دن دہشتگردی کا نشانہ بنا۔ اس دن کے اندوہناک واقعات نے پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کیا جو ہمیشہ دلوں کو دہلا دینے والا اور آنکھوں کو نم کر دینے والا رہے گا۔پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشتگردی کا شکار رہا ہے۔ 2000 کی دہائی سے، دہشتگردوں نے نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ عوام اور خصوصاً معصوم بچوں کو بھی نشانہ بنایا۔ سانحہ اے پی ایس، دہشتگردوں کی ایک بزدلانہ کارروائی تھی جس کا مقصد ملک کے مستقبل کو تاریک کرنا تھا۔ اس دن سات دہشتگردوں نے اسکول پر حملہ کیا، اور تقریباً نو گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس قیامت خیز کارروائی میں 132 معصوم طلباء اور 17 اساتذہ و عملے کے ارکان شہید ہوئے۔بچوں کی شہادت: ایک ناقابل بیان دکھ:سانحہ اے پی ایس کی سب سے زیادہ المناک بات یہ تھی کہ اس میں معصوم بچے، جو صرف علم حاصل کرنے کے لیے اسکول آئے تھے، بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ ان بچوں کا خون پورے معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ گیا۔ والدین کے دل و دماغ پر اس واقعے کا ایسا اثر ہوا کہ وہ آج بھی ان لمحات کو بھلا نہیں پاتے۔ ہر ماں اور باپ کے دل میں یہ سوال ہمیشہ زندہ رہے گا کہ ان کے بچوں کا قصور کیا تھا؟سانحہ اے پی ایس نے پاکستان کو ایک نئی سمت دی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پوری قوم نے اپنی تمام تر تفریق اور اختلافات کو بھلا کر ایک عزم کیا کہ دہشتگردی کے خلاف یکجا ہو کر لڑا جائے گا۔ اس واقعے کے بعد ملک میں قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا، جس کے تحت فوجی آپریشنز، انٹیلیجنس شیئرنگ، اور دہشتگرد تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے۔والدین کا غم اور حوصلہ:سانحہ کے بعد شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے جس صبر، حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کیا، وہ ناقابل فراموش ہے۔ ان والدین نے اپنے غم کو طاقت میں بدل کر قوم کو یاد دلایا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہوگی۔ بہت سے والدین نے اپنی زندگی اس مشن کے لیے وقف کر دی کہ معصوم جانیں دوبارہ اس طرح ضائع نہ ہوں۔تعلیم دشمنی اور دہشتگردوں کا مقصد:دہشتگردی کے اس سانحے نے یہ واضح کر دیا کہ دہشتگردوں کا اصل ہدف علم اور تعلیم ہے۔ وہ جانتے تھے کہ تعلیم یافتہ نسل ہی وہ ہتھیار ہے جو انہیں شکست دے سکتی ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں نے علم حاصل کرنے کی قیمت اپنی جانوں سے چکائی، لیکن ان کی قربانی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تعلیم کے چراغ کبھی بجھنے نہ پائیں گے۔قوم کے عزم کی تجدید:سانحہ اے پی ایس نے پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا۔ یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ معصوم بچوں کا خون ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کو ایسا بنانا ہے جہاں ہر بچہ محفوظ ہو اور تعلیم حاصل کر سکے۔سانحہ اے پی ایس نے ہمیں کئی سبق سکھائے:
1.⁠ ⁠تعلیم کا تحفظ: تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔2. دہشتگردی کے خلاف یکجہتی: معاشرتی سطح پر دہشتگردوں کے بیانیے کو رد کرنا ہوگا۔3. قومی ہم آہنگی: قوم کو مسلسل متحد رکھنا ہوگا تاکہ کسی بھی مشکل وقت میں ہم یکجا رہ سکیں۔4. معصوموں کی قربانیوں کو یاد رکھنا: ہمیں ان بچوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھر سکے گا، لیکن یہ زخم ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ ہم نے اپنے بچوں کے خون کا قرض چکانا ہے۔ یہ قرض اس وقت چکایا جا سکتا ہے جب ہم پاکستان کو ایک ایسا ملک بنا دیں جہاں نہ صرف تعلیم کا حصول ممکن ہو بلکہ ہر بچے کی زندگی اور خواب محفوظ ہوں۔ ان بچوں کی قربانی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ دہشتگردی کا خاتمہ ہی ہمارا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ ان معصوم شہداء کے لیے ہمارا سب سے بڑا خراج تحسین یہ ہوگا کہ ہم اپنے وطن کو دہشتگردی سے پاک کر کے ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلیں۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور ایک ایسا زخم ہے جو ہمیشہ قوم کو دہشتگردی کے خلاف متحد رہنے کی یاد دلاتا رہے گا۔ معصوم بچوں کی قربانی ہمیں اس بات کا پابند کرتی ہے کہ ہم تعلیم، امن اور تحفظ کو یقینی بنائیں اور ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں کوئی خوفزدہ نہ ہو۔اور دہشت گردی کو نیست و نابود کر دیں۔۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.