مری فضا میں ہے ترتیب کائنات کچھ اور

0

(دوسرا حصہ)

دشتِ امکاں

بشیر احمد حبیب

اسی طرح جدید ممالک میں اگر مرد و زن understanding سے اور بغیر کسی عمرانی معاہدے یعنی شادی یا نکاح کے اکٹھے زندگی گزارنا چاہے تو اس سماج کا قانونی اور اخلاقی فریم ورک اس کی اجازت دیتا ہے ۔

اگر ہم درست تجزیہ کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں یہاں اکثریت جبلی سطحوں پر زندگی گزارنا چاہتی ہے مگر وہ ایسا کیوں کرتی ہے تو اس کی یہ بڑی وجہ سامنے آ تی ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک محدود وقت تک ہے اور اس سے بھی کم وقت اس کی active زندگی کا ہے ۔ سو اس قیام میں اس کی تمام تر توجہ اسی بات تک محدود رہتی ہے کہ میں اتنے ریسورسز اکٹھے کر لوں جن سے میں اپنی زندگی جبلی تقاضوں کو اپنی مرضی کے مطابق پورا کرنے میں بھر پور استمال کر سکوں ۔ یعنی

نو روز و نو بہار و مے و دلبرے خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

بعد میں یہی انفرادی سوچ پورے معاشرے کی سوچ یا اکثریت کی سوچ بنتی ہے اور ہر آ نے والی نسل انہی مروجہ راستوں پہ قدم مارتی نظر آتی ہے اور یوں یہ سائیکل چلتا رہتا ہے۔

جب ہم ان معاشروں کا جائزہ لیتے ہیں جو سائنسی علوم میں آگے ہیں اور جو اپنی نسلوں کے لیے بہترین یونیورسٹیوں کی فراہمی ممکن بنا رہے ہیں یہاں تک کہ برین ڈرین کے ذریعے پوری دنیا کا ٹیلنٹ اپنے ہاں مائگریٹ کر رہے ہیں ، اور چونکہ ذرائع پیداوار بھی ان کے قبضے میں ہیں تو وہ پر تعیش اور پر آسائش زندگی کے تمام اسباب کو بھی خود ہی produce کر رہے ہیں جن میں لباس پوشاک خوراک چھت ٹرانسپورٹ غرض یہ کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی مثلآ رنگ گورا کرنے والی کریم سے لے کر بڑی سے بڑی چیز یعنی ذاتی جہاز تک کی سپلائی ان کے ذمہ ہے جب کہ ہمارا رول محض consumer کا ہے ۔

ہم کہہ سکتے ہیں ساری دنیا کی آبادی ان کی مارکیٹ ہے ۔

پسماندہ ممالک میں حالات یہ ہیں کہ گنے چنے لوگ ذرائع پر قابض ہیں اور باقی سب اپنی اپنی بساط کے مطابق تمام عمر اچھے زرائع روزگار کے لیے سعی کرتے رہتے ہیں ۔ ان ممالک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ شعوری طور پر پیدا کئے گئے سیاسی تنازعات کے باعث یہ اصلحے کی خریدار بنا دیئے گئے ہیں ۔ اور ادھار اصلحہ خریدنے کی دوڑ میں اپنا سبھی کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں ۔

پسماندہ ممالک کی نئی نسل کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پوری کی پوری نسل misdirected ہے ، بلکہ ڈائریکشن لیس ہے ۔ ذہین سے ذہین بچے بھی applied سائنسز پڑھنا چاہتے ہیں یعنی کوئی پروفیشنل ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں ، ڈاکٹر بننے کے لیے کروڑوں خرچنے کے لیے تیار ہیں ، گھر گاڑی سب کچھ تیاگنے کو بھی تیار ہیں ، یہاں تک کہ پاکستانی ، بنگلہ دیشی اور انڈین سٹوڈنٹس ڈاکٹر بننے کی دوڑ میں بہت سے دوسرے ممالک کا سفر بھی کر رہے ہیں جو پاکستان سے بھی پسماندہ ہیں ۔

ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ یہ ہے یہاں پیور سائنس پڑھنا تقریبآ ایک گالی بن چکا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے یہاں کوئی اوریجنل کام ہو ہی نہیں رہا ، چھاپہ لگا کر پی ایچ ڈیز ہو رہی ہیں اور چھاپہ ماروں کے لیے کوئی نوکری نہیں ۔ بغیر پیور سائنسز میں اعلی تعلیمی مہارت کے کوئی معاشرہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو ہی نہیں سکتا ۔ کوریا محبوب الحق کے ترقیاتی منصوبوں پر چلتے ہوئے پیور سائنسز میں پی ایچ ڈیز کے انبار لگا چکا اور اس کے اثرات ان کی سوسائٹی پر آ ج ہر کوئی دیکھ سکتا ہے ۔

ہمارے یہاں مفکرین کو ہر شہ کی فکر ہے سوائے اس کے کہ نئی نسل کو سائنس میں original کام کی طرف کیسے راغب کیا جائے ۔ میرے خیال میں تو اب ایسی ایمر جنسی کی صورت پیدا ہوچکی ہے کہ تبلیغی جماعت کی طرح سائنس پڑھے لوگوں کا ٹولیوں کی شکل میں نکلنا اور نوجوان نسل کو سائنسی علوم کی طرف راغب کرنا ناگزیر ہو چکا ہے ۔

مگر ایسا ممکن نہیں ، دنیا جیسے چل رہی ہے ویسے ہی چلتی رہے گی اور نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔

ہاں ایک لیول پر اس کام کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور وہ آپ کی اپنی ذات ہے ، اپنی ذات سے لے کر اپنی فیملی تک جو space ہے وہاں آ پ کی رائے چلتی ہے اور کم از کم وہاں آپ اس سمت میں سفر کا آغاز کر سکتے ہیں ۔ فیملی چونکہ کسی بھی معاشرے کی بنیادی اینٹ ہے اس لیے اگر ہر اینٹ ٹھیک shape میں ہو گی تو بالآخر پوری عمارت بھی بے عیب ہی بنے گی ۔

ہماری طاقت یہ ہے کہ ہم چوبیس کروڑ سے زیادہ ہیں جن میں 65 فی صد نوجوان ہیں ، اور ہمارے ہاں خام ٹیلنٹ ایسے بکھرا ہوا ہے جیسے آسمان پر تارے ، ہم نے بس اسے شناخت کرنا ہے اور صیح ڈائرکشن میں لگانا ہے ۔ اب چونکہ یہاں ملکی سطح پر تو ایسا کوئی منصوبہ ممکن نہیں تو ہمارے پاس individual فیملی لیول پر یہ کام ممکن ہے ۔

سوال وہی پرانا ہے کوئی اس سمت کو جو معاشرے میں غیر شعوری طور پر ہر کس و ناکس نے اپنا رکھی ہے اس سے کیسے باہر نکلا جائے ۔

ہمارے یہاں ایک مضبوط حوالہ مذہب ہے , گو دین ہمیں غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے ، کائنات اور انسان کی تخلیق کے عقدے کھولنے کی طرف بھی بلاتا ہے اور ذروں کے اندر چھپی ہوئی وسعتوں کے اسرار کھولنے کی طرف بھی راغب کرتا ہے مگر المیہ دیکھئے کہ اکیسویں صدی میں ہمارے جید علماء اور ان کے معتقدین کی بڑی تعداد آج بھی زمین کو ساکن مانتی ہے اور اس کائنات کا مرکز سمجھتی ہے ۔

مگر جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا معاشرے اور تہزبیں ایسے ہی اپنے نیچرل بہاؤ میں سفر کرتی ہیں اور کوئی abrupt تبدیلی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.