قانون کی حکمرانی کا تصور

7

پانچواں درویش ۔۔۔۔۔۔عبدالعلی سید

آئین کو ری رائیٹ کرنے کا عمل جاری ہے اور اب سیاستدان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نیا قانونی نکتہ اٹھادیا ہے کہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کیخلاف پٹیشن نہیں سن سکتا، 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف پٹیشن کوسننے کیلئے فل کورٹ بنائی جائے، جوڈیشل انکوائری کی جائے کہ حکومت نے سینیٹ میں ووٹ کیسے پورے کئے؟ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں استدعا لے کر گئے کہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کیخلاف پٹیشن کو نہیں سن سکتا، کیونکہ وہ خود 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بنا ہے، اس حوالے سے انہوں نے یہ استدعا کی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف پٹیشن سننے کیلئے فل کورٹ بنائی جائے۔تاہم اس حوالے سے جب 26ویں آئینی ترمیم کے حکومتی مسودے کو سامنے لایا گیا تو یہ بات بتائی گئی تھی کہ کہ سپریم کورٹ کے اس آئینی بینچ میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہوگی اور یہ بینچ آئین سے متعلق کسی بھی معاملے کی سماعت کرے گا۔یہ مجوزہ مسودہ وزارت قانون میں تیار کیا گیا ہے جس میں مبینہ طور پر ملک کے متعدد آئینی ماہرین سے اس بارے میں رائے لی گئی تھی ۔تاہم دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سامنے آنے والے مجوزہ مسودوں سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم زیادہ تر عدلیہ اور اس کے اختیارات سے ہی متعلق ہے جس میں نئی آئینی عدالت کی تشکیل سے لے کر اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی اور سپریم کورٹ کے اختیارات سے متعلق سفارشات شامل ہیں۔
اسی طرح آئینی ترمیم کے حوالے سے منظوری سے قبل
پی ٹی آئی نے فضل الرحمان کے ساتھ پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ 90 فیصد اعتراضات دور ہوگئے۔ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ممبران کے کہنے پر دو شقیں نکالی گئیں۔جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ملک سے سود کے خاتمے سے متعلق ایک ترمیمی شق بل میں شامل کرنے کی تجویز بھی دی تھی جسے اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیاتھا اور اب یہ شق آئین کا حصہ ہے ۔اس لحاظ سے تو کسی حد تک آئینی ترمیم کو متفقہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے تاہم اس پر اختلاف رائے بھی کیا جارہا ہے ۔بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر اپوزیشن نے اب نئے نکات اٹھائے ہیں ۔ترمیمی بل میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز سمیت چار اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے، جن میں سے ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام وزیر اعظم جبکہ ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیں گے۔اس بل کے مطابق ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینیٹ سے ہو گا۔بل کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیئر جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے تین نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور 12 رکنی کمیٹی ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔ جس کے بعد وزیر اعظم اس ضمن میں صدر کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی سفارش کریں گے۔اسی طرح بل میں آئین کے آرٹیکل 199 کے کلاز 1 میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اب اسے شق 1 اے کہا گیا ہے جو ہائی کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق ہے۔اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کسی بھی معاملے پر نہ کوئی از خود نوٹس لے سکتی ہے اور نہ کسی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔اسی طرح آئین کے آرٹیکل 203 ڈی میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی ایپل کو متعلقہ اعلیٰ عدالت 12 ماہ کے اندر نمٹانے کی پابند ہے۔26ویں آئینی ترمیم میں آئین کی آرٹیکل 191 اے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔اس بل کے مطابق آئینی بینچوں کی تعداد اور ان کی مدت کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گی۔ جوڈیشل کمیشن ان آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔بل میں کہا گیا کہ اس آئینی بینچ کے پاس موجود اختیارات کسی دوسرے بینچ کو تفویض نہیں کیے جا سکتے۔ان حالات میں اب یہ کہنا کہ آئینی بنچ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف پٹیشن نہیں سن سکتا ابھی قبل ازوقت ہے کیونکہ آئینی معاملات اگر آئینی بنچ نے ہی سننا ہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ بنچ اسی 26ویں آئینی ترمیم کے باعث وجود میں آیا ہے ،آئین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا قانون سازوں کی ذمے داری ہے اس حوالے سے انہوں نے اپنا کام کردیا ہے اس کے آگے اب آئینی بنچ کے اختیارات ہیں جس پر کوئی بھی قانونی قدغن مفروضے کی بنیاد پر نہیں لگائی جاسکتی ،آئین میں سب سے مقدم بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے ۔انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے کسی نے تو یہ ذمے داری نبھانی ہے ۔پارلیمان سے نئی ترامیم کے لئے مزید مجوزہ مسودے لانے کی بات بھی چل رہی ہے ،ان کے لئے بھی تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا عمل یقینی بناکر ہی بل منظور کروائے جائیں تاکہ کسی بھی مرحلے پر کوئی سقم نہ رہ جائے ،آئین کو ری رائیٹ کرنے کیلئے احتیاط کا دامن چھوٹ گیا تو پھر سب کچھ بے معنی ہو جائے گا ۔اگر پہلے سے ہی مجوزہ قانونی مسودے پر ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے تو پھر بل پاس ہونے کے بعد اس کے نقائص بھی سامنے نہیں آئیں گے ،یہی جمہوریت کا حقیقی حسن اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا نام ہے ۔متفقہ آئینی ترامیم سے ہی قانون کی حکمرانی قائم ہوگی ،ریاست کی رٹ برقرار رہ سکے گی اور آئین کی بالادستی پر بھی آنچ نہیں آئے گی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.