ریاست بہاولپور کی بھولی بسری روایات

13

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
دوپہر کے بعد اچانک کہیں سے آواز بلند ہوتی “بالو بچوں خیرات گھن ونجو “یعنی بچوں خیرات لے جاؤ تو ہماری امی جان فورا” کوئی پلیٹ یا برتن دۓ کر دوڑاتیں کہ جاو ٔ خیرات لیکر آو اور ہاں سے یہ ضرور پوچھ کر آنا کہ یہ خیرات کس نے کی ہے اور کیوں کی ہے ؟ ہم دوڑتے اور خیرات لاکر دیتے اور انہیں بتاتے کہ فلاں گھر نے خیرات اس لیے کی ہے کہ ان کا بیٹا بیمار ہے یا ان کا والد کسی حادثہ میں زخمی ہو گیا ہے ۔اس دور میں خیرات لینے کو عار نہیں سمجھا جاتا تھا ۔غریب وامیر سب خیرات لینا باعث ثواب سمجھتے تھے ۔یہ خیرات دراصل ایک بہانہ تھا یوں پورا محلہ اس خبر سے روشناس ہوجاتا تھا ۔دوسری صبح ہی ہماری امی جان اس گھر تک عیادت،اظہار ہمدردی اور یکجہاتی کے لیے پہنچ جاتیں اور مرد بھی وقت نکال کر وہاں جاتے تھے ۔ہمارے علاقے کا ایک اچھا رواج یہ تھا کہ عیادت کے بعد مریض کےتکیے تلے چپکے سے حسب توفیق خیرات کے نام پر کچھ رقم بھی رکھ دی جاتی تھی ۔جو مدد کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کا باعث بنتی تھی اور مشکل وقت میں ساتھ کھڑے ہونے کو ظاہر کرتی تھی ۔آج یہ خوبصورت ثقافتی روایت ماضی کا حصہ بن چکی ہے ۔خیرات کا وہ تصور اب دیکھنے کو نہیں ملتا جو اس کی اصل خوبصورتی ہوا کرتا تھا ۔ جس جس گھر میں پھل دار درخت بیری ،جامن ،شہتوت ،فالسہ ،آم ، سونجنا ،لسوڑہ یا مرود وغیرہ ہوتا اس کا پھل تمام احباب کو تھوڑا تھوڑا ضرور بھجوایا جاتا ہمارے اردگرد کے زمیندار اور کاشتکار اپنی فصلوں کے ثمرات بھی دوسروں کو بانٹنا فرض سمجھتے تھے ،ہری مرچ ، گنے ،سرسوں کا ساگ ، گوار کی پھلیاں ،مونگرے ،گاجر مولی ،پودینہ ،گنے کارس،گندم یا جو کا ستو ،باجرہ یا مکئی کا آٹا ، ہمیں کبھی خریدنا نہ پڑتا تھا۔گاۓ یا بھینس کا بچہ پیدا ہوتا تو سب کو تھوڑی تھوڑی بولی یعنی کھیس بھجوائی جاتی تاکہ سب کو یہ خوشخبری مل جاۓ اس طرح لوگ ان کے پاس جاکرمبارکباد دیتے تھے ۔جس گھر میں دودھ دینے والا جانور ہوتا وہاں سے لسی لینا اپنا حق سمجھا جاتا تھا ۔میں جب بھی کبھی لسی لینے جاتا لسی کے ساتھ تھوڑا سا مکھن ضرور ڈالتے تھے ۔میرے دوست سعید چشتی مرحوم کا ایک آم کا چھوٹا سا باغیچہ تھا مگر دوست پورے سال اس کے آم کھانے کے منٹظر رہتے تھے ان کے گھر لگی بیری کے شاندار بیر بھی کسی سوغات سے کم نہ ہوتے تھے ۔یہ محبتوں کا وہ اظہار تھا جس کی آج مثال کوئی مثال نہیں ملتی ۔کوئی کسی کے گھر نہ خالی آتا اور نہ ہی خالی ہاتھ جاتا تھا اور کچھ نہیں تو تھوڑا سا شہدہی دیا جاتا تھا ۔ سردی کے دوران گھر گھر سوہن حلوہ بنایا جاتا اور یہ سوغات احباب کو دی جاتی ۔گرمیوں میں نہر کنارے ساونی یعنی پکنک کی تقریبات ہوتیں اور دوستوں کو اس کی دعوت دی جاتی تھی ۔آم اور ٹھنڈائی کے دور چلتے تھے ۔
چوری والی عید ایک حسین روایت جو یہاں خوب منائی جاتی تھی ۔ ڈیرہ نواب صاحب میں عرصہ دراز سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ اسلامی مہینہ صفر کے آخری عشرے میں خواتین کی جانب سے ٹکڑے اور چوری کی رسم منائی جاتی ہے ٹکڑے کو بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ باریک گندم کے آٹے کو گڑ یا چینی کے شیرے میں گوندھ کر چھوٹی چھوٹی گول روٹیوں کی طرح بنایا جاتا پھر اسے کئی گھنٹوں تک دھوپ میں خشک کیا جاتا خشک ہونے کے بعد گرم گھی یا آئل میں تل لیا جاتا یوں ٹکڑے تیار ہوتے جبکہ چووری بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ موٹی روٹی (ڈھوڈا) تیار کیا جاتا پھر اسی موٹی روٹی کی پسائی کی جاتی پھر اسمیں شکر یا چینی اور دیسی گھی ملایا جاتا بعض لوگ اس میں خشک میوہ جات بھی شامل کرتے یوں ایک بہترین چووری تیار ہوجاتی ٹکڑے چووری کی رسم اب دیہی علاقوں میں کہیں کہیں منائی جاتی ہے لیکن زیادہ تر یہ رسم ختم ہوچکی ہے پرانے وقتوں میں خواتین ٹکڑے چوری تیار کرکے عزیز و اقارب کو بھیجتیں اور رشتہ داروں میں جہاں ناراضگی چل رہی ہوتی تھی ان کے ہاں خصوصی طور پر چوری ٹکڑے بھیجے جاتے تھے بعض لوگ اسے بدعت سمجھتے تاہم یہ رسم دراصل محبتیں بانٹنے والی رسم تھی جسےیہاں کے وسیب میں بڑی چاہ سے منایا جاتا تھا جو اب ختم ہوچکی ہے۔گو اس عید کے بارے میں کئی روایات بھی بیان کی جاتی ہیں لیکن دراصل یہ آپس کی محبتوں کو فروغ دینے کی رسم اور روایت ہوتی تھی ۔

ریاست بہاولپور کے حکمران اور عوام عشق رسول سے سرشار تھے ۔اس لیے نعت خوانی اور محفل نعت کو عروج حاصل تھا ۔ڈیرہ نواب صاحب میں یہ روایت اور رواج عام تھا کہ ہر جمعہ نماز کے بعد نعت خوانی اور دوردوسلا م پڑھا جاتا تھا ۔ یہی نہیں یہاں نعت خوانی کے لیے نوجوانوں کی ٹولیا ں بنی ہوتی تھیں جو شادی برات ،رسم ختنہ ،اور حج پر جانے والے کو رخصت کرتے وقت یا اسکی واپسی پر جلوس کی شکل میں آگے آگے نعت خوانی کرتے جاتے جسے مولود کہاجاتا تھا اور یہ ٹولی والے مولودی کہلاتے تھے ۔اسی طرح ہر جنازے کے آگے آگے بھی یہ مولودی قبرستان پہنچنے تک نعت خوانی کرتے جاتے تھے ۔ان کی کئی ٹولیاں ہوا کرتی تھیں مگر ٹبی بلوچاں کی ٹولی بہت مقبول ہوا کرتی تھی ۔یہ رواج ڈیرہ نواب صاحب سے پھیلاتا ہوا حمدپور شرقیہ اور پھر بہاولپور تک بھی جا پہنچا ۔سرائیکی کی یہ نعت خاص طور پر پڑھی جاتی تھی ۔” رسول اکرم رسول اکرم درود پڑھ کے پکاراں دم دم “۔رمضان شریف میں مولودیوں کی ٹولیاں سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کا فریضہ بھی ادا کرتیں تھیں اور محرم میں یہی گروپ جلوس کے ساتھ ساتھ نوحہ خوانی بھی کرتے تھے ۔
ریاست بہاولپور میں” ونگار “کا ایک خوبصورت کلچر تھا جس کے تحت سب ایک دوسرے کے کام کرنے کے لیے رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کرتے تھے ۔خاص طور پر فصل کٹائی اور شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کررضاکارانہ طور پر مدد کے لیے پہنچ جاتے تھے ۔یہ بھی باہمی محبت کا اظہار ہوتا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ میری بہن کی شادی میں پورا محلہ ونگار پر موجود تھا اور تمام انتطامات انہوں نے خود کئے تھے ۔یہاں کی خواتین عید سے قبل ایک دوسرے کے گھروں میں جاکر سوئیاں اور جڑوے بنواتیں ۔
رمضان شریف کا استقبال اور احترام اس قدر کیا جاتا تھا کہ مقامی سینما ہال عید تک کے لیے بند کردئیے جاتے اور تمام ہوٹل سحری اور افطاری کے علاوہ مکمل بند رہتے تھے ۔سرعام کھانے پینے پر سخت پابندی ہوتی تھی ۔بڑے پیمانے پر افطاریوں کا اہتمام ہوتا تھا ۔یہ افطارعام ہوتی تھی جس پر بذریعہ اعلان سب کو بلایا جاتا اور لوگوں بھی ایک دوسرے کی افطاری میں شرکت کو اپنا فرض اور ثواب سمجھتے تھے ۔رمضان المبارک کی رخصتی کا بڑا عجیب اور دکھ بھرا منظر ہوتا تھا لوگ رمضان شریف کو آنسوں اور آہوں سے بڑی حسرت سے رخصت کرتے کہ ناجانے پھر یہ مبارک مہینہ ملتا بھی ہے یا نہیں ؟ شہر مین ننگے سر باہر نکلنا قانونی اور اخلاقی جرم ہوتا تھا ۔
اسی طرح کی ایک روایت یہ بھی تھی کہ موت والےگھر میں افسوس اور فاتحہ خوانی کے لیے لگاتار تین دن تک لگاتار اور بار بار جایا جاتا تھااور ان کے غم میں شرکت کا حق ادا کیا جاتا تھا ۔اسی طرح شادی یا خوشی کے موقعہ پر رسم نقارہ ادا کی جاتی اور شادی سے چند دن قبل ہی نقارچی شادی یا خوشی والے گھر اپنا ڈیرہ لگا دیتے اور وقفے وقفے سے نقارہ بجا کر اس بات کا اعلان کرتے کہ یہاں کوئی شادی یا خوشی کی تقریب ہونے جا رہی ہے اس طرح پورے علاقے کو اس تقریب کی خبر پہنچ جاتی اور شادی سےقبل ہر رات دوست احباب جمع ہوتے اور اس موسیقی کے ساتھ ساتھ گپ شپ اور جھومر ڈال کر اپنی جانب سے دوسروں کی خوشی میں شرکت کرتے تھے ۔ ڈیرہ نواب صاحب یا صادق گڑھ پیلس پورے بہاولپور کی ثقافت کی نمائندگی کرتا تھا کیونکہ یہاں نواب آف بہاولپور اور ریاست بہاولپور کے تمام بڑے عہدیدار رہتے تھے۔ایسی تمام ریاستی روایات یہیں سے جنم لیتیں اور پھر پوری ریاست بہاولپور میں پھیل جاتیں تھیں ۔ریاست کے خاتمہ کے ساتھ ہی یہ رسوم رفتہ رفتہ پوری ریاست سے ختم ہوتی چلی جارہیں بلکہ ختم ہو چکی ہیں ۔
ریاست بہاولپور کے لوگ غریب ضرور تھے مگر خوشحال تھے کیونکہ وہ بڑے دل کے مالک ہوتے تھے ۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف جیبوں کا خالی ہونا غربت ہے ۔حقیقت میں غربت تو دلوں کی غربت ہوتی ہے کیونکہ خالی جیب تو بھر سکتی ہے مگر اگر دل خالی ہوجائیں تو خالی دلوں کو جذبات اور احساسات سے بھرنا مشکل ہوتا ہے ۔وہ دل ہی غربت زدہ ہوتے ہیں جو لوگوں سے دوری اختیار کر لیتے ہیں اور یہ دوری محبتوں کو کم کرتی چلی جاتی ہے ۔ریاست بہاولپور کے یہ لوگ مختلف طریقوں سے محبتیں بانٹنے اور اسے قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔کیونکہ محبت کبھی بھی غریب نہیں ہونے دیتی ۔یقینا” یہ روایات ان کے بڑے دل کی علامت ہوا کرتی تھیں ۔آج پیسے کی فراوانی تو دکھائی دیتی ہے لیکن دلوں کی تنگی یہ سب کرنے سے روکتی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.