ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت

8

اداریہ

پاکستان میں حکومت کی رٹ ہر حال میں برقرار رکھنے والوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ،ملک کے حقیقی خیرخواہوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرکے دشمن ملک کو کمزور کرنا چاہتا ہے ،ملک دشمنوں کے آلہ کار اپنے مفادات کیلئے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا رہے ہیں ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی وقت کی ضرورت ہے ،ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کیلئے تمام سیاستدانوں کو ایک صفحے پر آنا چاہئے۔عوام کو گمراہ کرنے والوں کی چالیں ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہی ہیں ان حالات میں حکومت ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کیلئے اہم اقدام کررہی ہے اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کہتے ہیں کہ جو اسٹیٹ کیخلاف ہتھیار اٹھائے گا وہ ہمارا دشمن ہے ۔ پی ٹی ایم پر پابندی کے معاملے پر وزیر داخلہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت متبادل عدالتی نظام کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ ایک طرف آپ اداروں کو گالیاں دے رہے ہیں ۔ ہمارے علم میں ہیں کہ ایک دو سیاسی جماعتیں پی ٹی ایم سے ملی ہیں اور ان کو بتایا ہے کہ حقوق کی بات ہے تو بات ہو سکتی ہے لیکن بندوق نہیں اٹھانے کی اجازت ہو گی ۔ پڑوسی ممالک کی مثالیں لے لیں، ہم نے پی ٹی ایم کو بین کیا اور کے پی حکومت نے گرفتاریاں کیں۔ بینک اکاونٹس، پاسپورٹ آئی ڈی کارڈز بلاک ہوتے ہیں اور جو ان کی مدد کرے گا معاونت کرے گا ان کے بھی اکاونٹس اور کارڈز بلاک ہوں گے۔ وزیر داخلہ نے پی ٹی ایم کے تین دنوں کے پلان بتا دیے ،غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے ان کی ویڈیوز اور تشہیر کر دیے ہیں، ان کے ماسٹرز اور آپریٹرز کیلئے واضح پیغام ہے کہ کوئی اجازت نہیں ہے نہ ہی نرمی ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ خاموش نہیں ہو گی ،نرم اسٹیٹ نہیں ہو گی کہ یہاں بغیر ویزے کے لوگ آتے رہیں، سمگلنگ عام تھی ، اب نرم اسٹیٹ نہیں ہو گی سختی سے پیش آئیں گے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ جو اسٹیٹ کیخلاف ہتھیار اٹھائے گا وہ ہمارا دشمن ہے ، جو حدود میں رہ کر بات کریں گے ان کے ساتھ حکموت بیٹھے گی اور یہ فرض ہے ، سب سے پہلے پاکستان ہے اس کے بعد سیاست اور دوسری چیزیں آتی ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی کے پی پہلے خود کلیر کر لیں کہ وہ آئی جی اسلام آباد سے ملے بھی ہیں کہ نہیں ، وہ اپنے بیانات میں خود کلیر نہیں ہے، پولیس کو بااختیار کرنے کی ضرورت ہے ، گنڈا پور ڈی چوک کب آئے مجھے بھی بتا دیں، ان کی کال ڈی چوک کی تھی اور ہم نے ڈی چوک کی حفاظت کرنی تھی ، اسلام آباد کے 21 انٹری پوائنٹس ہیں ، ہم نے انہیں جلسہ نہیں کرنے دینا تھا آپ ان سے پوچھ لیں کہ وہ ڈی چوک آئے ہیں یا نہیں۔ سعودی مہمان بھی پہنچ آئے ہیں اور ان کی سیکیورٹی کے انتظامات کیے جا چکے ہیں۔کچھ تنطیموں پر پابندی عائد کی تھی اس کے حقائق بتانا چاہتا ہوں، آپ ایک طرف ریاستی اداروں، حکومتوں کو گالیاں دے رہے ہیں۔ جرگہ کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ ان کے سیاسی رہنماوں کی سوشل میڈیا پر گفتگو سن لیں یہ کس قدر گالیاں دیتے ہیں، آپ کئی سالوں سے ریاستی اداروں کو گالیاں دیتے رہے تب ہم نے پابندی عائد کی، سیاسی حقوق کی بات کریں ضرور کریں، جو کوئی بھی ان کے ساتھ ملوث پایا گیا ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی، ان کے دفاتر، پاسپورٹس کینسل، سفری پابندیاں تو پابندی کے ساتھ ہوئی ہے۔پی ٹی ایم کا ایجنڈا دیکھیں، ان کو بیرون ملک سے ڈاکومنٹریز بنا کر دی گئیں۔ حقوق ہونے چاہیے میں خود حقوق کا بہت بڑا علمبردار ہوں، کیا کسی کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جو لوگ پی ٹی ایم کو کسی بھی طرح سہولت دیں گے ان کو بھی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور سیاسی جماعتوں پر پابندی کا سامنا ہوگا۔بلاشبہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کوکچلنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ضروری ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.