والد صاحب کا عالمِ ارواح سے خط

13

تحریر ۔۔۔ مرزا روحیل بیگ
والد صاحب کا عالمِ ارواح سے خط
میرے بچو السلام علیکم
کافی دنوں سے میں تمھیں خط لکھنے کا سوچ رہا تھا۔ جونہی زمین اور آسمان کے درمیان موسم صاف ہوا تو میں نے فوری خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ جان سے بھی پیارے میرے بچو میں نے زندگی کے آخری روز تم سب کو بہت یاد کیا۔ میری خواہش تھی کہ آخری وقت میں تم سب اور تمھاری ماں میرے پاس موجود ہوتے، تاکہ میں تم سب سے ڈھیروں باتیں کرتا، سب سے اپنے دل کی باتیں کرتا۔ یہ سوچیں دم توڑ گئیں جیسے ہی میری سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی بیماری کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کی، پیارے بیٹے سہیل اور فرحان نے آخری دنوں میں بہت بھاگ دوڑ کی کبھی سیالکوٹ کبھی لاہور، لیکن زندگی کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ لختِ جگر شعیب اور روحیل جب مجھے پردیس سے الوداع کرنے پہنچے تو گھر میں کہرام مچ گیا، میری پیاری بیٹیاں اور تمھاری ماں غم سے نڈھال تھیں۔ پیاری بیٹی روبینہ بھی مجھے الوداع کرنا چاہتی تھی مگر وہ بروقت نہ پہنچ سکی اور بعد میں مجھے ملنے آئی۔ میرے بچو اپنی ماں کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ اچھا برتاؤ کرنا اور بہت خیال رکھنا۔ تمھاری ماں نے ساری عمر خاص طور پر میرے آخری دنوں میں میری بہت خدمت اور دیکھ بھال کی، میں جب بیمار ہوتا ساری رات جاگتی رہتی، مجھے دوا دیتی، اپنے رب سے گِڑ گڑا کر میرے لیئے دعائیں مانگتی۔ مجھے معلوم ہے وہ میرے بغیر بہت اُداس، پریشان اور غمزدہ ہے، میرے لیئے گِڑگڑا کر دعائیں کرتی ہے، زارو قطار روتی ہے، اپنی ماں کو کہنا اپنی صحت کا خیال رکھے میں بلکل ٹھیک اور بڑی اچھی جگہ پر ہوں۔ شام کو میں اور سلیم امی اور ابا کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور خوب باتیں کرتے ہیں۔ ادھر آنے کے بعد امی ابا اور سلیم نے سب کا حال احوال مجھ سے پوچھا۔ امی اور ابا نے میری پیشانی پر پیار بھرا بوسہ دیتے ہوئے میرا استقبال کیا، سلیم جس طرح زندگی میں میرے پاؤں چھو کر سلام کرتا تھا اُسی انداز میں میرے پاؤں چھو کر ملا اور مجھے گلے سے لگاتے ہوئے کہنے لگا وِیر آپ سب کو غمزدہ اور اُداس کر آئے، آپ کے ساتھ ہی سب رونقیں اور رعنائیاں تھیں، سب آپ سے رہنمائی لیتے تھے، تھوڑا اداس ہو کر کہنے لگا باجی اور بچے آپ کے یوں اچانک بچھڑنے پر غمزدہ اور پریشان ہوں گے، آپ باجی اور بچوں کو لکھیں کہ وہ اپنے آپ کو تنہا اور پریشان محسوس نہ کریں، ہماری دعائیں قدم قدم پر ہمیشہ آپکے ساتھ رہیں گی۔ میرے بچو میں ہمیشہ سے تمہارے بہتر، پرسکون اور روشن مستقبل کا خواہش مند تھا، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ “ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے” میری ان خواہشات پر میرا دم ہی نکل گیا، میری اچانک موت نے تم سب کو بکھیر کر رکھ دیا۔ تمام منصوبے تمام خواب ریزہ ریزہ ہو گئے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ادھورے مشن کو میرے خوابوں کو تم شرمندہ تعبیر کرو گے انشاءاللہ۔ میرے بچو مجھے اس بات کا بے حد دکھ ہے کہ میں جسمانی طور پر تمھارے ساتھ نہیں ہوں مگر ساتھ یہ اطمینان بھی ہے کہ میں نے تمھاری اچھی پرورش اور تربیت کی۔ میرے بچو نماز کی پابندی کرو، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں مگر خود رب العزت کو جو راستہ سب سے زیادہ پسند ہے وہ ہے اس کی مخلوق کے ساتھ محبت، رواداری، احترام اور انصاف کرنے کا راستہ، تمھیں بھی یہی راستہ چننا ہے، اس سے تم یقیناً اللہ تعالیٰ کو بھی راضی کر سکو گے اور پھر دیکھنا کامیابیاں، کامرانیاں تمھارے کس طرح قدم چومتی ہیں۔
( مرزا شبیر بیگ )

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.