مٹی اور خوشبو (دوسرا حصہ)

9

مٹی اور خوشبو (دوسرا حصہ)

دشتِ امکاں

بشیر احمد حبیب

روحانی وجود کا علم سورہ الحجر (آیت 28-31) سے ملتا ہے
“اور جب فرشتوں سے کہا کہ میں سیاہ سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔ تو سب فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا کہ سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو ۔
اس میں اپنی روح پھونک دوں یعنی جسمانی وجود کے ساتھ روحانی وجود کی پیدائش یہاں سے انسان حیوانات سے distinguish ہو جاتا ہے۔
اب آ ئیے انسان کی پیدائش کے موضوع پر ، حیوانات میں انسان کا بچہ واحد مثال ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی ماں کا ڈیپینڈنٹ ہوتا ہے ۔
ماں اسے پال پوس کر بڑا کرتی ہے ۔ یہ اس کی جسمانی growth ہے ۔ اس کے اندر روحانی بچے کو نہ تو کوئی ماں ملتی ہے ہے نہ استاد ۔ کبھی partially یہ کام ماں یا باپ سے ادا ہوتا ہے مگر اکثر روحانی بچے کا وجود بچہ ہی رہتا ہے ۔
جب وہ بچہ بڑا ہو کر سکول کالج جاتا ہے اور جبلی تقاضوں کے جبر میں ، لوگوں سے ملتے ہوئے کبھی چاند کی فرمائش کر دیتا ہے۔ اور جب وہ جبلی تقاضے پورے نہیں ہوتے تو بعض اوقات یہ محرومی روحانی وجود کی بیداری کا سبب بنتی ہے اور وہ ہجر و وصال کے دشت سے کچھ آ گاہی کی منازل طے کرتا ہے ۔
اسی مقام پہ وہ عشقِ مجازی میں کسی زلف کا اسیر بھی ہو جاتا ہے ۔کبھی کبھی وہاں سے ایسی ٹھوکر لگتی ہے اور دل پہ ایسی کاری ضرب پڑتی ہے کہ اس کی روحانی growth کی کئی منزلیں طے ہو جاتی ہیں ۔
جتنا ادب اور فنون لطیفہ میں کام کیا جاتا ہے وہ اسی phase میں ہوتا ہے ۔ اور اکثریت کی پوری عمر اسی عشقِ مجازی کی سحر میں گزر جاتی ہے۔
اس مقام پر کچھ لوگ جو حساس دل رکھتے ہیں اور جو اپنی جبلی شخصیت سے اوپر اٹھ کر اپنی روحانی شخصیت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں انہیں زندگی میں کوئی ایسی ماں یا رہنما ضرور ملتا ہے جو اس کے روحانی وجود کو پروان چڑھا دیتی ہے اور یہ ماں کبھی استاد اور کبھی پیر کامل کے طور پر سامنے آ تی ہے۔
اس ضمن میں اگر کوئی اچھی مثال اگر میں دے سکوں جس سے بات واضع ہو جائے تو اس کے لیے آ پ کو میرے ساتھ ترکی کونیہ چلنا ہو گا۔
یہ مولانا جلال الدین رومی کا شہر ہے ۔ رومی کے والد گرامی کا تعلق بلخ افغانستان سے تھا ۔ ان کی دادی حکمران کی بیٹی اور دادا شہر کے بڑے عالم تھے۔

رومی کی پیدائش بلخ افغانستان میں ہوئی وہ ابھی چھوٹے تھے کچھ سیاسی مصلحتوں کی خاطر ان کے والد نے بلخ سے کونیہ ہجرت کی ۔ کہتے ہیں کتب خانے کی کتابوں کو تین سو اونٹوں پر لادا گیا ۔
اس علمی اور مذہبی فضا میں رومی جوان ہوئے اور درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔ علوم فلسفہ اور مذہبی علوم میں رومی کا وہ مقام تھا کہ لوگ ان کے ہاں تحصیل علم کے لیے دور دور سے آ تے ۔
ان کی شہر میں وہ آ ن بان اور شان تھی کہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کے چلتے تو اطراف میں شاگرد ان کی ریسپکٹ میں ساتھ ہو لیتے ۔
دوسری طرف شمس تبریز ، تبریز ایران میں پیدا ہوئے , وہ بہت بڑے صاحب حال صوفی تھے ، اللہ نے ان کی باطنی آنکھ روشن کر رکھی تھی ۔ جتنی ان کی آنکھ روشن تھی اتنا ہی وہ ابلاغ سے دور تھے ۔ وہ ہمیشہ اللہ سے دعا کرتے مجھے اس سے ملا دے جو میرے سینے میں چھپے رازوں کو دنیا تک پہنچائے گا۔
جب وہ ساٹھ برس کے ہوئے اور ان کی پریشانی بڑھ گئی تو اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ان کے دل میں ڈالا کونیہ ترکستان چلے جاؤ ۔ وہ شہر پہنچے اور سرائے میں کمرہ لے کر رہنے لگے ۔ ان کی عادت تھی وہ سرائے کی بیرونی لابی میں بیٹھ کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے اور اس اللہ کے بندے کو ڈھونڈھتے جس کے لیے وہ سفر کر کے یہاں آ ئے تھے۔
وہ اس دن بھی سرائے کے باہر بیٹھے تھے جب اپنے شاگردوں کے جھرمٹ میں رومی وہاں سے گزرے ۔ دل نے گواہی دی یہ وہی ہے ۔ وہ اٹھے اور اس کے پیچھے ہو لیے ۔
رومی کی عمر اس وقت 38 برس تھی ۔ شمس تبریز نے دیکھا ، ایک خوبرو شخص تالاب کے کنارے درس دے رہا ہے ۔ اور شاگرد ان کی گفتگو کے سحر میں گم ہیں ۔ ان کے ایک طرف کتابوں اور قلمی نسخوں کا ڈھیر ہے جو تالاب کے دیوار پر رکھے ہیں ۔ شمس تبریز آگے بڑھے اور ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے پوچھا ۔ یہ کیا ہے ۔ رومی نے ان پہ سرسری نگا ہ ڈالی اور دیکھا کوئی درویش ہے تو بے اعتنائی سے کہا جو اس میں ہے وہ تم نہیں جانتے ۔ اور اپنی توجہ درس کی طرف مبذول رکھی ۔
انہوں نے سوچا درویش یہ سن کر رخصت ہو جائے گا مگر وہ شمس تبریز تھے جنہوں نے اسے مرید کامل کے طور پر پہچان لیا تھا۔
شمس تبریز آ گے بڑھے ، تالاب میں اترے اور دونوں بازوؤں سے کتابوں کو تالاب میں گرا دیا ۔
رومی نے جب یہ دیکھا تو جلال میں آ گئے ، غصے میں میں کہا یہ آ پ نے کیا کر دیا میرے آ با کے علمی خزانہ برباد کر دیا ۔
شمس تبریز نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور کتاب نکالی اور رومی کے ہاتھ میں دی رومی نے کتاب کو حیرت سے دیکھا وہ خشک تھی انہوں نے اس پر ہاتھ مارا تو گرد اڑنے لگی ۔وہ حیرانی سے دیکھتے رہے اور شمس تبریز نے ایک ایک کر کے ساری کتابیں خشک حالت میں تالاب کے کنارے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.