ایک نظر ادھر بھی

3

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

میرے ایک دوست نے میری توجہ آج کے ایک معاشرتی المیے کی جانب مبذول کرائی ہے کہ  وہ فرماتے ہیں کہ “آپ کے کالم بےشک اصلاحی اور سبق اموز ہوتے ہیں  اور نئے نئے موضوحات پر بھی آپکی قلمی کاوشیں مجھے بہت پسند ہیں  لیکن ہمارے معاشرے کی صرف مسائل ہی نہیں بلکہ ایسے المیے بھی ہیں جن پر لکھنے سے عام طور محتاط انداز اختیار کیا جاتا ہے ۔میں آپکی توجہ ایسے ہی ایک اہم ترین معاشرتی المیے کی جانب کرانا چاہتا ہوں  جو ہر آنے والے دن کے ساتھ ساتھ ہمارے گھروں میں بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ان کے بقول معاشرے میں غیر شادی شدہ افراد کا تیزی سے بڑھتا ہوا خوفناک اضافہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس جانب ہر سطح پر توجہ دی جانی چاہیے ۔ہم سب غیر شادی شدہ مرد وخواتین کے اعدادوشما ر تو سامنے لاتے ہیں لیکن ان کے غیرشادی شدہ رہنے کی اسباب اور وجوہات کی جانب غور کرتے ہوۓکتراتے ہیں  اور ان کے سدباب کی جانب توجہ نہیں دیتے ۔جس کی باعث بےشمار اخلاقی خرابیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے ۔ نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر خودکشی تک کر رہے ہیں ۔بین المذاہب شادیاں فروغ پارہی ہیں ۔ شادیوں میں بےجااخراجات کی وجہ سے قرض لینے سے خوفزدہ والدین ڈئپریشن کا شکار ہیں ۔ایسے میں ہمارے دانشوروں  کو آگے آنے اور اس کے لیےشعوری بیداری کی جدوجہد کا حصہ بننا چاہیے ۔” میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں   اور یہ خواہش  بھی کرتا ہوں کی ہم سب مل کر اس جانب توجہ دیں  تو ہی ہم اس معاشرتی مسئلے سے خود کو بچا پائیں گے ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کرنا ضروری ہے   ؟ جس کی بدولت اس معاشرتی المیے سے نجات ممکن ہو سکتی ہے ۔پہلے ذرا چند اعداد وشمار پر نظر ڈالتے ہیں  تاکہ مسئلے کی سنگینی کا   احساس ہوسکے ۔

پچھلے دنوں یہ خبر سامنے آئی تو مجھے بڑا تعجب ہوا کہ حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ملک میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد چار کروڑ 25 لاکھ ہو گئی ہے۔ گذشتہ چھ سالوں میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد میں تقریباً 52 لاکھ کا اضافہ ہوا، سنہ 2017 میں یہ تعداد تین کروڑ 73 لاکھ تھی۔پنجاب میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ دو کروڑ 36 لاکھ ہے، سندھ 95 لاکھ 86 ہزار، خیبرپختونخوا 66 لاکھ 72 ہزار، بلوچستان 21 لاکھ 81 ہزار جبکہ اسلام آباد میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد چار لاکھ 86 ہزار ہو گئی ہے۔ غیرشادی شدہ افراد میں سے حیران کن طور پر مردوں کی تعداد زیادہ جو دو کروڑ 51 لاکھ سے زائد ہیں جبکہ غیرشادی شدہ عورتوں کی تعداد ایک کروڑ 71 لاکھ سے زائد ہے۔ یہ اعدادوشمار 15 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے کوائف کو سامنے رکھ کر مرتب کیے گئے۔ غیرشادی شدہ افراد میں سے کم وبیش 45 فیصد کی عمریں 30 سال سے اوپر ہیں۔ 

ادارہ شماریات نے 15 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے ڈیٹا کی بنیاد پر  ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ مردم شماری رپورٹ کے مطابق 2017 میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد 3 کروڑ 73 لاکھ تھی۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں غیر شادی شدہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی، صوبے میں یہ تعداد 2 کروڑ 36 لاکھ ہوگئی۔ سندھ میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد 95 لاکھ 86 ہزار سے تجاوز کرگئی۔ خیبرپختونخوامیں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد 66 لاکھ 72 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ بلوچستان میں غیرشادی شدہ افراد 21 لاکھ 81 ہزار سے تجاوز کرگئے۔ اسلام آباد میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد 4 لاکھ 86 ہزار ہوگئی جبکہ شادی شدہ افراد کی تعداد 9 کروڑ 45 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ملک میں 6 برسوں میں شادی شدہ افراد کی تعداد میں 1 کروڑ 42 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک میں طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ پہلے ۲۰۱۷ء میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد پانچ لاکھ پندرہ ہزار تھی۔ جبکہ ملک میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4 لاکھ 99 ہزار ریکارڈ ہوئی ہے۔یہ تمام اعداد وشمار نہایت پریشان کن ہیں  اور یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اب اس بارۓ میں وسیع پیمانے پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔

اسی دوران ایک دوسری خبر نے بھی چونکا دیا کہ  اگست کے دوسرے ہفتے درجنوں غیر شادی شدہ نوجوان افراد پاکستان کے شہر لاہور میں اپنے ممکنہ شریکِ حیات سے ملنے کے لیے جمع ہوئے۔ برطانیہ میں قائم ایک ازدواجی ایپ کی جانب سے قدامت پسند اسلامی ملک میں لوگوں کو ازخود شریکِ حیات تلاش کرنے میں مدد دینے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ عموماً پاکستان میں شادیوں کا اہتمام والدین کے ذریعے ہوتا ہے جو بچوں کے لیے اپنی برادریوں یا بڑے خاندان سے مناسب رشتہ تلاش کرتے ہیں۔ 240 ملین لوگوں کے ملک میں ڈیٹنگ ایپس عموماً بدنام ہیں اور سماجی طور پر اور کام کی جگہ پر صنفی علیحدگی عام ہے۔ لاہور کی تقریب کا اہتمام مَز ایپ نے کیا تھا جس کا نام پہلے مَز میچ تھا جو کہتی ہے کہ یہ ایپ اسلامی آداب پر مبنی ہے۔ ایپ صرف مسلم صارفین تک محدود ہے اور روایتی اقدار کے مطابق مخصوص رشتوں کے علاوہ تصاویر کو دکھانے  کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ اور یہ نگہبانوں کے لیے ملاقات کی نگرانی کرنا ممکن بناتی ہے۔ رشتے طے کرنے کے روایتی اصولوں کو چیلنج کرنے کے لیے ملک میں دیگر چھوٹی تقریبات بھی سننے اور دیکھنے میں رہی ہیں۔ رشتے طے کرنے کے روایتی اصولوں کو چیلنج کرنے کے لیے ملک میں دیگر چھوٹی تقریبات بھی ابھر رہی ہیں۔ ایپ پر ماضی میں آن لائن تنقید کے باوجود مَز کی تقریب میں تقریباً 100 افراد نے شرکت کی۔اس سے قبل اس طرح کی تقریب اسلامی ملک  مراکش میں بھی  کامیابی سے منعقد ہو چکی ہے ۔خبر کے مطابق  بچوں کی بہنوں اور ماوں نے  بھی اپنے بچوں کے ہمراہ  اس میں شرکت کی  جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب شادی  کا معاملہ معاشرے کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں رہا ہے۔گو   ہمارے معاشرے میں خود شریک  حیات کی تلاش  کی اس کوشش کو قطعی پذیرائی نہیں  حاصل نہیں ہو سکی ۔کیونکہ ایک اسلامی معاشرہ اس کی اجازت شاید اس طرح نہیں دیتا  ۔دوسرے معاشرے کی متعین کردہ حدود وقیود میں رہ کر زندگی گزارنا ہماری مذہبی اور ثقافتی ذمہ داری بھی ہے ۔مگر آج کے دور میں مرد اور خواتین کی شادیاں بےجا مطالبات ،اخرجات ،رسوم و روایات  اور سب سے بڑھ کر برادری  ،قومیت اور رنگ ونسل کی باعث مشکل بن چکی ہیں ۔ایک جانب جہاں لڑکی کے لیے جہیز اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ صاحب جائداد ،پڑھا لکھا اور برسر روزگار ہونا دیکھا جاتا ہے تو دوسری جانب لڑکوں کے لیے پڑھا لکھا ، برسر روزگار ،اچھی آمدنی کا حامل اور چھوٹے اور مالدار خاندان سے تعلق ہونا ضروری ہو گیا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم بطور قوم اس بارۓ میں کوئی سوچ رکھتے ہیں ؟   کیا ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم اس معاملے میں خاموش رہ کر کچھ اچھا نہیں کر رہے ہیں ؟  غیر شادی شدہ مرد وخواتین کی یہ اتنی بڑی تعداد  کیا لمحہ فکریہ نہیں ہے ؟رشتوں کے لیے پریشان والدین  اور نوجوان کس کرب سے گزرتے ہیں  وہ بھی کسی المیے سے کم نہیں ہوتا  دوسری جانب مرد وخواتین بھی بلاوجہ شادی میں تاخیر سے ذہنی و  نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں ۔یہ ساتھ ساتھ معاشرتی  بےراہ روی میں اضافے کا باعث بھی بن رہا  ہے ۔جسکی واحد وجہ ہماری مجموعی طور پر اسلامی احکامات اور ہدایات سے دوری ہے ۔

پچھلے دنوں میرے ایک قریبی عزیز   جو نہایت پڑھے لکھے اور سلجھے ہوۓ انسان ہیں ۔انہوں نے بے پناہ تنقید کے باوجود تیسری شادی کی تو میں نےان سے وجہ پوچھی  تو انہوں نے کہا کہ پہلی شادی والدین نے کی تھی  جبکہ دوسری شادی ایک بیوہ اور کئی بچوں والی سے کی جس کے بچے بڑے ہوکر اپنے قدموں پر کھڑے ہو چکے ہیں اور اب تیسری شادی بھی اسی سوچ سے کی ہے کہ اگر ہم صاحب حیثیت لوگ ان بیواوں اور مطلقہ خاص طور پر بچوں والی خواتین  کو سہارا نہیں دیں گے تو پھر ان کا کیا بنے گا  ؟   یہ اپنے بچوں کو کیسے سنبھال پائیں گیں ۔ان کو تحفظ کی ضرورت بہت زیادہ  ہو جاتی ہے ۔ہمارے معاشرے میں خواتین کی  دوسری شادی کو دن بدن مشکل بنایا جارہا ہے اور یہی وجہ  ہے کہ معاشرے میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔دوسری جانب پہلی شادی کو بھی مشکل سے مشکل تر ین کر دیا گیا ہے ۔اسلام دین فطرت ہے  اور شادی کے بارۓ میں احکامات بڑے واضح ہیں ۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی تلخیوں  اور ناہمواریوں  کی باعث ہماری سوچ عجیب ہو چکی ہے ۔کوئی  صحت مند فرد   معمولی معذور لڑکے یا  لڑکی کو سہارا دینے پر تیار نہیں ہے ۔ہمارے اس  عزیز کے مطابق شریعت کی رو سے ایسی خواتین کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے جو بیوہ ،طلاق یافتہ یا بانجھ  ہیں  اور مردوں کے لیے بھی یہی افضل   ہے اور اسے نیکی کا درجہ دیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی سوچ کو اپنا کر اس مسئلے کا حل تلاش کر نا ہو گا  تاکہ معاشرہ بے راہ روی سے محفوظ رہے ۔ہمیں اس پر ناصرف غور کرنا چاہیے بلکہ متعدد نکاح کو فروغ دے کر بیوہ ،مطلقہ ،بانجھ خواتین کا سہارا اور خوشیوں کے لیے ان کا  ساتھی بننا چاہیے ۔ورنہ لوگ لاہور کی طرح کے اجتماعات کو فروغ دینے پر مجبور ہو جائیں گے ۔شادی اور خصوصی طور پر دوسری شادی کے بارے میں  اپنے تعلیمی نصاب میں بھی اس بارۓ میں آگاہی دینے کی آج اشد ضرورت ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.