قائد اعظم محمد علی جناح ؒ _دنیا کی نظر میں

14

حکیم راحت نسیم سوہدروی
Hknasem@gmail.com
قائد اعظم محمد علی جناح ایک ہمہ جہت اور عہد افرین شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ جغرافیہ کا رخ موڑ کر تاریخ کا دھارا بدلنا اور اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مملکت اسلامی پاکستان کا قیام ہے۔ انہوں نے بیک وقت انگریز سرکار اور ہندو اکثریت سے جنگ لڑی اور خالصتاً آئینی و جمہوری ذرائع سے بغیر کسی اسلحہ یا فوج کے یہ جنگ جیتی اور ایک بار بھی جیل نہیں گئے۔ ان کا منفرد اور عظیم کارنامہ دیکھ کر دنیا بھر کے مفکر، دانشور اور سیاستدان حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور ان کی راست فکری، اصول پسندی، مستقل مزاجی کے قائل ہو کر عظیم راہنما تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
قائد اعظم کی ذات صوری اور معنوی خوبیوں کا مرقع تھی۔ عزم صمیم اور قوت ارادی کے پیکر تھے اور اصولوں پر سمجھوتا کرنا سیکھاہی نہیں تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں جھکا سکتی تھی نہ خرید سکتی تھی۔ وہ کہ ایک بلند پایہ قانون دان اور بالغ نظر سیاستدان تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وہ مسیحا تھے۔ انہوں نے مسلمان قوم کو مملکت پاکستان کی صورت ۱۴ اگست۱۹۴۷ء بمطابق ۲۷ رمضان المبارک ،جمعتہ الوداع، شب قدر اور نزول قران کی مبارک ساعتوں میں پاکستان کا تحفہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم انہیں قائد اعظم کے لقب سے پکارتی ہے۔ قائد اعظم نے سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے۔ ہندو کے تعصب اور عزائم نے ان کو کانگریس سے الگ ہونے اور مسلمانوں کو متحد و منظم کرنے پر مجبور کر دیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ 1937ء کے لکھنو سیشن میں آل انڈیا مسلم لیگ کو عوامی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا 23 مارچ 1940؁ء کو مطالبہ پاکستان کو منزل بنایا اور صرف سات سال کے عرصے میں ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان حاصل کر لیا۔ وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ کارواں منزل پر پہنچ چکا تھا۔ میر کارواں تھک کر چور ہو چکے تھے۔ تھکا دینے والی جدو جہد نے انہیں صحت سے غافل کر دیا تھا اور وہ ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ میر کارواں کی خوبیوں سے مزین تھے۔ وہ کھوکھلے نعروں کی بجائے حقیقت پسندی پر زور دیتے تھے۔ ان کی کی شخصیت کا اعتراف صرف اپنوں بلکہ غیروں نے بھی کیا اور عظیم راہنما قرار دیا۔
ایل ایف پش ولیم غیرمنقسم ہندوستان میں مختلف عہدوں پر فائز رہا۔ بعد میں بی بی سی اور دی ٹائمز لندن سے بھی وابستہ رہا۔ اپنی کتاب سٹیٹ آف پاکستان میں رقمطراز ہے۔
میرے دوست بضد ہیں کہ جب برطانیہ مشکل میں تھا تو اس نے تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کانگریس کے مقابل مسلم لیگ کی پشت پناہی کی جس میں مسٹر جناح آپ کا آلہ کار بنا اس تھیوری کے خلاف دلیل یہ ہے کہ جو شخص مسٹر جناح کو جانتا ہے وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ “وہ زندگی میں کسی کا آلہ کار نہیں بنا”آگے چل کر وہ کہتا ہے۔
“کانگریس کی مکاری کو مد نظر رکھتے ہوئے قائد اعظم نے تمام معاملات اتنی عقلمندی اور مہارت سے نپٹائے کہ کانگریسی راہنما بھی پاکستان کے قیام اور تقسیم ہند کوبڑی تباہی سے بچنے کی امید سمجھنے لگے۔” فیلڈ مارشل سرکلا ئیڈ آرکٹیکٹ کہتا ہے۔”
“میں جناح کا بڑا مداح ہوں۔ وہ زبردست شخصیت کے مالک تھے۔ اور دھن کے پکے تھے۔ کوئی چیز ان کی غیر معمولی قوت ارادی کو دبا نہیں سکی۔”
معروف دانشور اور جناح آف پاکستان کے مصنف اسٹیلے والپرٹ کہتے ہیں۔ بلاشبہ جناح ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اور وہ برصغیر کے سب سے بلند قانونی دماغ تھے۔ اگر چہ نہرو بھی قانون دان تھے مگر وہ جناح کے برعکس قانونی باریکیوں کو کم ہی سمجھتے تھے۔ جناح کی خوبی یہ تھی کہ وہ جب کوئی فیصلہ کر لیتے تو اس پرسختی سے کاربند ہو جاتے۔‘‘
چین کی معروف شاعرہ لو ہنگ کہتی ہیں جو ان کی نظم کو پہلا شعر ہے
جناح! اے مقار مت جہاد اور انقلاب کے نشان
جسے صحرا کے خانہ بدوش بھی پہنچانتے اور گنگا کے کناروں پر بسنے والے بھی جانتے تھے۔
جناح! روح انسانی تجھ کو کبھی بھول نہ پائے۔
مسٹر مائیگٹو قائد اعظم کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے۔ سب راہنماؤں کے ساتھ مسٹر جناح مجھ سے ملے۔ وہ ابھی جواں ہیں اور آداب محفل سے پوری طرح آشنا۔ ان سے ملنے والا چہرے مہرے سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ وہ استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے ان کا منصوبہ مکمل طور پرتسلیم کر لیا جائے میں جناح کی بحث سن کر تھک گیا اور میں نے ان کو ڈرانے کی کوشش کی مگر خود الجھ کر رہ گیا۔ اس میں شک نہیں کہ جناح انتہائی قابل شخص ہیں۔
مزید کہتا ہے:۔
مسٹر جناح ایک صاف ستھرا، انتہائی با سلیقہ نو جواں ہے جس کی چال ڈھال دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔گفتگو کے منطقی داؤ پیچ کا ز بر دست ماہر اور اپنی بات منوانے کے فن کو جانتا ہے۔ وہ اپنی بات کی ترمیم کا روادار نہیں ہے۔ میں ان سے باتیں کر کے ہار گیا۔”
لارڈ ماؤنٹ بیٹن:۔
“جناح کی شخصیت بڑی نمایاں اور ممتاز تھی۔ چٹان کی طرح محکم سخت اور اس کے ساتھ انتہائی ٹھنڈے دل ودماغ کا انسان اگر وہ کوئی سمجھوتہ کرتا تھا تو جھک کربزدلانہ انداز میں نہیں، مردانہ وار سمجھوتہ کرتا تھا۔”
لارڈ اردن:۔
مسٹر جناح اپنے اردوں اور اپنی رائے میں بڑے سخت ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لچک نہیں۔ وہ مسلم قوم کے مخلص را ہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں۔
سر ونسٹن چرچل:۔
جناح ایک بہترین سیاست دان ہیں۔ وہ ذہین فطین ہیں مسلمانوں کے اس راہنما کو میں ساری زندگی کبھی دل سے فراموش نہیں کر سکتا۔
گوپال کرشن گو کھلے:۔
جناح میں سچ کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ فرقہ واریت سے آزاد ہیں۔ ہندوستان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.