بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌نہیں ‌دیتے ؟

50

دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب

ممکن ہی یہ بات آپ کے لیے حیرانی کا باعث ہو کہ جب کوئی میڈیکل سٹور سے دوا خریدتا ہے تو ایک سروے کے مطابق اس کے جعلی ( Counterfeit ) یا معیار سے نیچے ( Substandard) ہونے کے تقریباً چالیس فی صد تک امکانات ہیں ۔
آپ ضرور سوچیں گے اتنی ہائی پرسنٹیج کیسے درست ہو سکتی ہے میں آپ کو سمجھاتا ہوں ۔ جعلی دوائی بنانے کا دھندہ تو اپنے عروج پر ہے ہی اور اصل کے ساتھ جعلی دوائی بھی ڈسٹریبیوشن چینلز میں موجود بھی ہے اور فروخت بھی ہو رہی ہے مگر ایک بہت بڑی پرسنٹیج غیر معیاری یا Substandard ادویات کی ہے جو ٹھیک اور لیگل چینلز سے آپ تک پہنچ رہی ہیں۔
سب سٹینڈرڈ ہر وہ دوا ہے جو اپنے لیبل پر لکھے ہوئے کلیم کو پورا نہیں کرتی ۔ مثلاً دوا کے اجزا میں سے کسی جز کا کم یا زیادہ ہونا ، دوا یعنی ایکٹو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹ (API) کا کم یا زیادہ ہونا ۔ دوائی کا مائکرو بائیولوجیکلی clear نہ ہونا ، اجزا کا فارماگریڈ کا نہ ہونا ، دوائی کے اجزا کا غلط ٹمریچر پر سٹور ہونے کی وجہ سے کوالٹی کا خراب ہو جانا ۔ اجزا کو غلط weight کرنا ، جس مشین پر اس کو بنایا گیا اس مشین کی آپریشنل کوالیفیکیشن اور کلیننگ ویلیڈیشن کا نہ ہونا ۔ جس مشین پر اس کو پیک کیا گیا اس پر dose کو کم یا زیادہ dispense کرنا وغیرہ وغیرہ۔
اوپر بیان کی گئیں deviations ان میں سے کچھ ہیں جو اصل میں کسی فارما انڈسٹری میں عمومآ ہوتی ہیں ۔ یہ غلطیاں یا deviations ہونے کے امکانات ہر فارما پلانٹ پر موجود ہوتے ہیں جن میں ملٹی نیشنل اور لوکل کمپنیاں دونوں شامل ہیں ۔

دوا بنانے میں غلطی کا احتمال جدید ممالک میں بھی ہوتا ہے مگر وہاں ایک ایسا نظام موجود ہے جس کے ذریعہ یہ Ensure کیا جاتا ہے غلط دوا مریض تک نہ پہنچے اور اس کو ریکال کیا جا سکے۔ مثلاً آپ FDA کے Web Page کو visit کریں تو روانہ بہت سی ریکالز آپ کو دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں زیادہ تر Voluntary Recalls ہوتی ہیں مثلاً دوائی کے لیبل پر ٹیکسٹ کی کوئی غلطی وغیرہ وغیرہ.
پاکستان میں پہلے ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جائزہ لیتے ہیں وہ ادویہ سازی کی صنعت اور ہمارے ھیلتھ سسٹم کو کیسے Serve کر رہے ہیں ۔ یہ بات تو طہ ہے ملٹی نیشنل کمپنیز کا ملک میں ہونا ایک طرف جدید ادویات کی فراہمی مناسب قیمت پر فراہمی کا اور دوسرا ٹکنالوجی ٹرانسفر کا باعث بھی ہیں۔
اگر ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں اپنے پلانٹس نہی لگاتیں تو ہمیں وہی ادویات امپورٹ کرنا پڑیں گی جو لوکل پروڈکشن کی وجہ سے قدرے مناسب قیمت پر مریض تک پہنچتی ہیں ۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پاکستان جیسے ملک میں جو روینیو ہوتا ہے وہ ان کے ٹوٹل گلوبل ریوینیو کا بہت ہی فریکشنل پارٹ ہوتا ہے اور وہ بھی ڈیٹا کی Rounding کرتے ہوئے نکل جاتا ہے ۔

اس کے باوجود وہ اپنے کسی بھی پلانٹ پر پروڈکشن کے وہی معیار ensure کرتے ہیں جو باقی دنیا میں وہ کر رہے ہوتے ہیں اس لیے کہ کوئی بھی ایڈورس ڈرگ ایونٹ ان کی گلوبل ریپویٹ میں ایسا ڈنٹ ڈال سکتا ہے جس کی تلافی پھر ممکن نہ ہو۔

اس لیے وہ ٹھیک انویسٹمنٹ کے ساتھ پروڈکشن فسلیٹیز کھڑی کرتے ہیں اور اس کو Maintain رکھتے ہیں وہ area کلاسی فیکیشن کی تمام requirements اور سٹینڈرڈز کو انشور کرتے ہیں ، اسی طرح مشینری ، اکوپمنٹ کی کوالفیکیشنز اور associated ویلی ڈیشنز پروٹوکولز کو پورا کرتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر وہ ایک competent ٹیم ہائر کرتے ہیں جو فارماسسٹس ، انجنئیرز، کیمسٹس اور دیگر ٹیکنکل سٹاف پر مشتمل ہوتی ہے تا کہ وہ تمام ملکی اور بین الاقوامی قوانین جو ڈرگ مینوفیکچرنگ سے related ہیں ان کو پورا کرتے ہوئے ڈرگ مینوفیکچرنگ کریں اور صیح دوا مریض تک پہنچا سکیں ۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی آرگنائزیشن میں ایک مضبوط
ہیومن ریسورس ڈیپاٹمنٹ ( HR) کھڑا کیا ہوتا ہے جو رائٹ مین ،رائٹ پلیس کو انشور کرتا ہے اور ان کو سروے based کمپیٹٹو سیلری پیکیج آفر کرتا ہے۔
یہ تو ہے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پروفیشنلزم کے حوالے سے کچھ چنیدہ باتیں اب آ تے ہیں نیشنل فارما کمپنیوں کے اوپر ۔

پاکستان کی بگڑتی ہوئی اکنومک صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اب سرعت کے ساتھ اپنی مینوفیکچرنگ فسلیٹیز بیچ کر یہاں سے رخصت ہورہی ہیں اور صرف ڈسٹریبیوشن چینلز چھوڑ کہ جارہی ہیں تا کہ یا تو ان کی پروڈکٹ امپورٹ ہو سکے یا پھر وہ کوئی لوکل کمپنی ان پروڈکٹس کی مارکیٹ آتھورازیشز خرید کر ان پروڈکٹس کو بنانے اور distribute کرنے کا ذمہ لے لیں ۔ اس طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کا چلے جانا ملک کے لیے اور فارما انڈسٹری کے لیے بہت برا شگون ہے۔
مثلاً
بی ایم ایس (BMS) ,
مرک (Merck) ,
جانسن اینڈ جانسن,( Johnson and Johnson ) ،
بائر (Bayer)

یہ چند بڑے نام ہیں جو اپنی پروڈکشن فسلیٹیز بیچ کر رخصت ہو چکے ہیں جب کہ دو بڑے جائنٹس ،
فائزر (Pfizer)
اور نوارٹس (Novartis) ایگزٹ کے پروسس میں ہیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ سال 2023 میں فارما سیکٹر کا ٹوٹل ریوینیو تقریبا 2.6 بلئین ڈالر کے قریب تھا۔ اس میں صرف تیس پرسنٹ ملٹی نیشنلز کا حصہ تھا اور باقی نیشنل فارما کمپنیز کا۔

پاکستان میں اس وقت تقریباً ساڑھے چھ سو رجسٹرڈ فارما کمپنیز ہیں ۔ جس میں سے تقریبآ سو کمپنیز ایسی ہیں جو پاکستان کے فارما سیکٹر کے ٹوٹل ریوینیو کا ستانوے پرسنٹ انجوائے کر رہی ہیں ان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور چند بڑی لوکل کمپنیوں جیسا کہ ,
Getz,
Sami,
Hilton
OBS
High noon,
CCL
Martin Dow

شامل ہیں جو کوشش کررہی ہیں کہ وہ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ پر کام کر سکیں ۔

ان چند بڑی کمپنیز کو چھوڑ کر باقی سیکٹر میں ہائی مینوفیکچرنگ سٹینڈرڈ ایچیو کرنے کے لیے بہت ایفرٹس کرنے کی اور بہت ریسورسز لگانےکی ضرورت ہے ۔ مگر مالکان ایسا کیوں کریں ۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان اور پروونشیل ھیلتھ اتھارٹیز Regular انپیکشنز کے ذریعے Good Manufacturing Practices
کو انشور کروایں ۔ ڈرگ مینوفیکچرنگ لائسنس کا حصول اس وقت تک ممکن نہ ہو جب تک کہ ڈرگ ایکٹ کے تمام تقاضے پورے ہو رہے ہوں اور Sustainable ہوں۔ کئی فارماسسٹس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.