جھکنا بڑائی ہے !!

22

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
ایک صاحب نے اپنا واقعہ لکھا کہ وہ ایک نیم صحرائی علاقے میں گئے، وہ تانگہ پر سفر کر رہے تھے کہ اتنے میں آندھی کے آثار ظاہر ہوئے تو تانگہ والے نے اپنا تانگہ روک دیا اس نے بتایا کہ اس علاقے میں بڑی ہولناک قسم کی آندھی آتی ہے، وہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چیزوں کو اڑا کر لیجاتی ہےاور آثار بتا رہے ہیں کہ اسوقت اسی قسم کی آندھی آرہی ہے، اسلئے آپ تانگہ سے اتر کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کریں۔ آندھی قریب آگئی تو ہم ایک درخت کی طرف بڑھےتاکہ ہم اسکی آڑ میں پناہ لے سکیں، تانگہ والے نے ہمیں درخت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو چیخ پڑا اور اس نے کہا آپ درخت کے نیچے ہر گز نہ جائیے اس آندھی میں بڑے بڑے درخت گر جاتے ہیں، اسلئے اس موقع پر درخت کی پناہ لینا بہت خطرناک ہےپھر اس نے کہا اس آندھی کے مقابلے میں بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کھلی زمین پر اوندھے ہو کر لیٹ جایں ہم نے تانگہ والے کے کہنے پر عمل کیا اور زمین پر منہ نیچے کر کے لیٹ گئے آندھی آئی اور بہت زور کے ساتھ آئی وہ بہت سے درختوں اور ٹیلوں تک کو اڑا کر لے گئی لیکن یہ سارا طوفان ہمارے اوپر سے گزرتا رہا اور زمین کی سطح پر ہم محفوظ پڑے رہے، کچھ دیر کے بعد جب آندھی کا زور ختم ہو تو ہم اٹھ گئےہم نے محسوس کیا کہ تانگہ والے کی بات بلکل درست تھی آندھیاں اٹھتی ہیں تو ان کا زور ہمیشہ اوپر اوپر رہتا ہے زمین کے نیچے کی سطح اسکی براہ راست زد سے محفوظ رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آندھی میں کھڑے ہوئے درخت تو اکھڑ جاتے ہیں مگر زمین پر پھیلی ہوئی گھاس بدستور قائم رہتی ہے ایسی حالت میں آندھی سے بچاؤ کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ وقتی طور پر اپنے آپ کو نیچا کر لیا جائے کیونکہ جھکنا زندگی ہے اور اکڑ موت کی علامت ہے ۔ یہ قدرت کا سبق ہےجو بتاتا ہے کہ زندگی کے طوفانوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے اس کا سادہ طریقہ یہ ہے کہ جب آندھی اٹھے تو وقتی طور پر اپنا جھنڈا نیچا کرلو کوئی شخص اشتعال انگیز بات کہے تو تم اسکی طرف سے اپنے کان بند کرلو کوئی تمہاری دیوار پر کیچڑ پھینک دے تو اسکے اوپر پانی بہا کر اسے صاف کردو اور کسی کے غصہ دلانے پر غصے میں نہ آو بلکہ کوئی تمہارے خلاف نعرے بازی کرے توتم اسکےلئے دعا کرنے میں مصروف ہو جاو۔اپنی اناوں کے خول میں بند ہونے سے آپ کے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں جھک جانا ہی محبت اور کامیابی ہے۔
روزمرہ زندگی میں جھک جانابہادری اور دانشمندی کی بات ہے معاف کر دینا اور درگزر دراصل جھک جانے کی ہی عملی شکل ہوتی ہے ۔جھک جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ غلط ہیں یا آپ کا موقف غلط ہے یا آپ بزدل ہیں بلکہ جھک جانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جھگڑے اور تصادم سے بچنا چاہتے ہیں،رشتوں کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی اناء ضد کےغلام نہیں ہیں ۔اپنا گھر ہو ،خاندان ہو ،کنبہ ہو یا پھر ملک ہو ان سب کی بقاء اور بہتری کے لیے تھوڑا جھک جانا کسی کی عزت وتوقیر میں کمی نہیں کرتا بلکہ اس کے وقار اور عزت میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے ۔
آج ہمارا ملک ایک ایسے ہی سیاسی ،آئینی اور قانونی دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے ایک راستہ ضد ،اناء جھگڑے ،نفرت ،مزاحمت اور تباہی کی جانب اور دوسرا راستہ امن ،باہمی مفاہمت اور محبت اور جھکنے کی جانب جاتا ہے ۔اس دوراہے پر خوبصورت امن اور سلامتی کا راستہ ہی قابل قبول نظر آتا ہے ۔
پاکستانی جمہوریت کیلیے مفاہمت اور تعاون کی سیاست ہمیشہ ایک خواب رہی ہے یہ سیاستدان اپنے اپنے مشترکہ مفادات کے باعث ایک دوسرے کے سامنے جھک بھی سکتے ہیں اور متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع بھی ہو سکتے ہیں معاہدے اور میثاق بھی کر سکتے ہیں ۔تو کیا آج یہ ملک و قوم کی فلاح کے لیے اپنی ضدوں اور اناوُں کے خول سے باہر نہیں آسکتے ۔ہمارے ملک کی سیاست اس وقت شدید تصادم کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ اختیارات اور اقتدار کی سیاسی ، آئینی و قانونی جنگ جاری ہے ایک دوسرے کو راستے سے ہٹانے کے بیان سنائی دیتے ہیں ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں پر گند اُچھالا جارہا ہے اور اب تو بات گالی گلوچ تک جا پہنچی ہے اپنی اس جنگ میں عوام کے مختلف طبقات کو بھی گھسیٹا جارہا ہےاور نوبت اداروں سے ٹکراوُ تک جا پہنچی ہے۔ ایک جانب جلسے ،جلوس ،ریلیاں،نعرے اور دھرنے ہیں تو دوسری جانب کنٹینر ،پولیس ،آنسو گیس ،لاٹھی چارج ،مقدمے اور گرفتاریاں ہیں دونوں جانب پاکستانی عوام ہیں لیکن ہمارے کسی ایوان میں بھی غریب عوام اور ملک کی تیزی سے ڈوبتی معیشت کی بات نہیں کی جاتی ! کوئی بھی بے روزگاری ،مہنگائی سے نجات کا راستہ نہیں دکھاتا ہے ۔کاش کوئی ان سے یہ پوچھے کہ تمہاری اس جھوٹی اناء اور ضد کی جنگ میں پسنے والے عوام کا کیا قصور ہے ؟ انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے ؟ عدم برداشت اور تصادم کے اس رویے سے وہ دن بدن اس پر جمہوریت اور سیاست سے بیزار ہوتے جارہے ہیں ۔ دنیا بھر میں ہمارااور ہمارے ملک اور ہماری جمہوریت کامذاق اڑایا جارہا ہے دشمن ہنس رہے ہیں اور دوست پریشان ہیں ۔ان سیاسی تلخیوں کے ماحول میں عام آدمی کا دم گھٹ رہا ہے آپس کی سیاسی مخالفت دشمنی میں ڈھل چکی ہے ہمارا پورا سیاسی ڈھانچہ اس بند گلی اور اندھیری سرنگ میں داخل ہو چکا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا ان حالات میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے زاری لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرہی ہے ۔جب اپنے ہی ملک چھوڑ رہے ہوں تو باہر سے کون آے گا ؟ اس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.