سیاست کے بدلتے رنگ

15

انسان ۔۔۔۔احسان ناز

گرینڈ الائنس بنانے کیلئے مولانا فضل الرحمان جو کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارد گرد سرگرم تھے اب وہ بھی کچھ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ان کے گھر جا کر گھیر لیا ہے اور ایسا ہوا ہے جیسا کہ دشمن اپنے دشمن کے گھر میں گھس کر مارتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سے صدر پاکستان آصف علی زرداری جب ملنے کے لیے اسلام اباد میں واقع ان کی رہائش پر گئے تو انہوں نے جاتے ہی مولانا فضل الرحمان کو بندوق کا تحفہ پیش کیا تھا ۔مولانا فضل الرحمٰن نے بڑے شوق اور ذوق سے اور گرم گوشی کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر اہم بات یہ بھی تھی کہ وزیر داخلہ پاکستان محسن نقوی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ محسن نقوی اور صدر پاکستان کا ایک ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کے دل دولت پر حاضری اس بات کی غماز ہے کہ حکومت یہاں پر ہے تو میں جاؤں گا ، پاکستان کے عوام کو یہاں کسی اور چکر میں ڈالنے کے لیے مولانا فضل الرحمان کی امداد کی فرشتہ ایک دن قبل مولانا فضل الرحمان سے پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ وفد نے بھی ملاقات کی تھی جس میں ایک ساتھ مل کر تحریک چلانے کے لیے بات چیت ہوئی، لیکن مولانا فضل الرحمان نے بہت کچھ کہا تھا لیکن یہ کہا تھا جلدی شام سے پہلے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہم ایک ساتھ چلیں گے اور ایک دوسرے کی مدد کریں گے جب شریفوں اور زرداریوں نے مولانا فضل الرحمان کی یہ سٹیٹمنٹ تو ان کے چھکے چھوٹ گئے اور فوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے اور اور ایسے نو ہیلپ ہوتا ہے گھنٹی بجا کے ٹلی کھڑکا دے پشاور کے بعد فیصلہ کیا کہ اب اس محاذ کو فتح کرنے کے لیے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور مثل نقوی کی مولانا فضل الرحمان کی ہے یا بنتی ہے تاکہ تمام تحفظات دور کر کے ان سے قومی اسمبلی سینیٹ اور دیگر صوبوں میں عددی حمایت حاصل کی جائے اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں ٹو تھرڈ اکثریت کا مسئلہ حل کر کے جو بھی قانون سازی ٹو تھرڈ اکثریت سے ہوتی ہے وہ کی جائے جس میں قاضی فائز عیسیٰ کو اس ایکسٹینشن اور پھر آئندہ آنے والے وقت میں وہ غیر ضروری معاملات جن سے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو فائدہ تو نہیں ہوگا لیکن شریفوں اور زرداریوں کے مزے ہوجائیں گے اور ان کی چاندی ہوگی اور وہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں رسی مضبوطی سے تھام سکیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس ملاقات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو وہ تمام عہدے اور طاقت دی جائے گی اور جمعیت علماء اسلام کو مرکز صوبوں اور اضلاع میں بھی شریک اقتدار بنایا جائے گا اور مولانا فضل الرحمان کے بیٹے جو کہ انتخاب ہار گئے تھے کسی نہ کسی طریقے سے ان کو بھی ایوان میں لانے کی کوشش کی جائے گی اس طرح جو بھی مولانا فضل الرحمن کی تحفظات ہیں بلوچستان میں وزارتیں مرکز میں وزارتیں صوبوں میں گزارتے ہیں وہ ان کو منہ مانگے داموں دے کر سینٹ اور قومی سملی میں اکثریت حاصل کی جائے گی اور جب بھی ٹو تھرڈ میجورٹی کی ا یہ ضرور ہوگی تو مولانا فضل الرحمنن کے تاش کے پتوں کو استعمال کیا جائے گا اب سیاست کا رنگ ہے دیکھیے کس طرح بدلتا ہے کبھی مولانا فضل الرحمان کے تحفظات ہوتے تھے تو وہ پی ڈی ایم کی حکومت میں وزارتیں زیادہ مانگ لیتے تھے اور ترقیاتی منصوبوں میں حصہ زیادہ مانگ لیتے تھے ان کو مل جاتا تھا اب جب پی ڈی ایم ٹو بنی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ان کو گھاس نہ ڈالتے ہوئے حکومت سے باہر کر دیا جب ان کو حکومت سے باہر کر دیا تو جیسے کہ ہوتا ہے نا مرتا کیا نہ کرتا تو انہوں نے تحریک انصاف کی طرف اپنے بازو پھیلائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انصاف رام ہو گئی اور ان کو بھی اپنے دامن میں لے کر بیٹھتے ہیں اس طرح مولانا فضل الرحمان اپنا قد اور اپنی قیمت بڑھانے کے لیے کئی دفعہ تحریک انصاف کے ساتھ اچھی گفتگو کرتے اور بعض دفعہ جلد دے کر یہ کہتے ہیں کہ میرا طریقہ انصاف کے ساتھ گزارا نہیں ہے جب کہ اندرون خانہ حکومت کے بڑے بڑے عہدے داروں اور اب اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا لوگوں سے ان کے رابطے رہتے اور یہ کہتے کہ میں تو طریقہ انصاف کے ساتھ جا رہا ہوں اور ان کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلا رہا ہوں اب آصف علی زرداری کا مولانا فضل الرحمان کے گھر پر جانا اور ان سے مذاکرات کرنا اور بندوق کا تحفہ قبول کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ مولانا فضل الرحمان اب اپنی قیمت وصول کر کے حکومت کے پلڑے میں جا چکے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد اگر یہ حکومت رہی مرکز اور صوبوں میں ان کو وزارتیں بھی ملیں گی اور تمام طاقتور عہدے جو ان کے حلقوں میں ڈپٹی کمشنر ڈی پی او اور دیگر سرکاری عہدے ہیں وہ بھی ان سے پوچھ کر ٹرانسفر پوسٹنگ ہوں گے پاکستان کی سیاست رنگ بازوں سے اٹی پڑی ہے۔ اور تاریخ بار بار ایسے اور آپ پر ہمیں سبق سیکھنے کا موقع دیتی ہے لیکن 40 سال سے ان 1979ء سے شریف اور 1970 سے زرداری پاکستان کی حکومت پر مسلط ہے اور ان کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان کی بھی داستان کوئی ڈھکی چھپی نہیں ،انہوں نے شریفوں اور زرداریوں اور پرویز مشرف کی حکومتوں کے ساتھ مل کر حکومت کی ہے اور اپنا حصہ مقدر جیسا وصول کیا ہے لیکن پھر بھی وہ ایسی شخصیت ہیں کہ جن کے تحفظات کبھی ختم نہیں ہوئے اور اور انہوں نے اپنی پارٹی میں بھی آمریت قائم کر رکھی ہے ہر بار خود امیر اور جنرل سیکرٹری بن جاتے ہیں اور جو بھی پارٹی میں اصولی بات کرتا ہے اس کو پارٹی کے عہدے اور بنیادی رکنیت سے فارغ کر دیا جاتا ہے حالانکہ بہت سارے ایسے پرانے ساتھی ان کو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.