کشمیریوں کا نعرۂ مستانہ۔ ”ہم ہیں پاکستان”
تحریر: شفقت حسین
اٹھارہ اگست کے روز شائع شدہ میرے کالم کے مطالعے کے بعد بعض بے تکلف دوستوں نے مجھے مطعون کرتے ہوئے جہاں مجھ پر دورۂ آزاد کشمیر کے ”فیوض و برکات” سے بہرہ مند ہونے کی پھبتی کسی۔ وہاں انہوں نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ آپ نے آزاد کشمیر کے سردار صاحبان سردار وسیم خان بالخصوص سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی ذات سے توقعات کچھ زیادہ ہی وابستہ کر لی ہیں جن کا کوئی جواز ہے نہ قرینہ۔ میں زیر لب مسکرایہ کہ مجھے تو خواہش اور آرزو صرف اور صرف فکری غذا اور رزقِ معرفت کے حصول کی تھی۔ مجھے کشمیر کی سیاست وہاں کے غیّوراور پاکستان دوست عوام کو بڑے قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدر محترم مظہر برلاس اور لاہور میں مقیم عزیزم بلکہ بھائی ناصر اقبال خان کی معرفت میّسر آیاتو میں کشاں کشاں عازمِ سفرِ کشمیر ہوا۔ میں نے ان احباب سے یہ بھی کہا کہ آپ مجھے جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ اپنی سوچ اور کنوکشن کے تحت لکھتا ہوں نہ بے جا تعریف اور نہ غیر تعمیری تنقید۔ جو دیکھتا’ سنتا’ اور محسوس کرتا ہوں دیانتداری سے سپردِ قلم کر دیتا ہوں۔ میں تو محض اتنا جانتا ہوں کہ 19 جولائی 1947 کے روز یعنی قیامِ پاکستان کے اعلان سے پچیس چھبیس روز پہلے آج پاکستان دوست کشمیری سیاسی قائدین کے بزرگ اگر تدّبر اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے الحاق کا درست اور وزنی اور صائب اور برمحل فیصلہ نہ کرتے تو پاکستان کے چاروں صوبے جنت نظیر وادیٔ کشمیر کی خوبصورتی اور سبزے اور روئیدگی سے مالامال خطے کے نظاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم رہ جاتے بالکل اسی طرح جس طرح آج ہم مقبوضہ کشمیر کے نظاروں کو ترستے ہیں’ یہ دانشمندانہ اور تاریخ ساز فیصلہ تو ہمارے بزرگ کشمیری قائدین (جو خدا تعالیٰ غریقِ رحمت کرے اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں) سونے بلکہ آبِ زم زم کے پانی سے لکھا جانے والا فیصلہ قرار دیا جائے گا لیکن اس فیصلے کا دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ بزرگ کشمیری قائدین اپنی آئندہ نسلوں کو ہندو بنیئے کے تسلط میں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ وہ ہندوؤں اور سکھوں کے یکساں مظالم سے پہلے ہی بہت تنگ آئے ہوئے تھے۔ وہ بھارت کے ساتھ رہ کر مزید مظالم سہنے کی تاب نہیں رکھتے تھے۔ وہ آج کے کشمیری عوام کی طرح بہت پڑھے لکھے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہماری اپنی فوج تو کوئی ہے نہیں’ اگر ہم اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر لیں تو ہماری بقا کی اور ہمارے تحفظ پر یقین کی ضامن مسلح پاکستانی افواج بن جائیں گی جوہماری طرح کلمہ گو اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت اور ختم المرسلین ۖکو اپنا ہادی تسلیم کرتے ہیں۔ میری اس بیان کردہ حقیقت کی صداقت کے گواہ خود میرے محسن اور مربی اور ایک خاص مفہوم میں دوست جناب سردار وسیم خان ہیں جنہوں نے مجھے بتایا کہ کشمیر کے 70/75 فیصد عوام خواندہ ہیں۔ نہ صرف مرد حضرات بلکہ ہماری بہنیں او ربہو بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی ہیں۔ یہاں کوئی کشمیری باشندہ کرائے کے مکان میں نہیں رہتا’ غریب سے غریب کشمیری کے گھر میں بھی دو بھینس ایک آدھ گائے اور دوچار بکرے بکریاں ضرور ہیں۔ کوئی کشمیری بہت زیادہ مالدار نہ بھی ہو وہ بیس پچیس کنال اراضی کا مالک ضرور ہے۔ اسے آزادانہ حقِ رائے دہی بھی حاصل ہے۔ ہر گھر سے کم از کم ایک دو افراد بیرونِ ملک ضرور ہیں۔ کشمیر میں زراعت پر حکومتی توجہ نہ ہونے کے باوجود اور بہت بڑی بڑی ہیوی ویٹ انڈسٹریز نہ ہونے کے باوصف خوشحالی ہے البتہ ایک چیز کا انہیں دکھ بلکہ قلق ضرور ہے کہ کشمیری عوام کے اوورسیز پاکستانیز کی تعداد کو وفاق تسلیم نہیں کرتا ورنہ کشمیری عوام نصف کروڑ سے بھی زیادہ ہیں۔ یہاں کا سیب ‘ آڑو اور چیری کا مقابلہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والے سیب آڑو اور چیری نہیں کر سکتے۔ میری خوشگوار حیرت کی انتہا نہ رہی جب سردار وسیم خان نے مجھے بتایا کہ درخت سے گرنے والا سیب یہاں کے عوام نہیں بلکہ ان کی بھینسیں کھاتی ہیں۔ قارئین کرام! ہمارے ہاں مشروم کی طرح مہنگی سبزی وہاں پیدا ہونے والی لینگڑی(Leengrri) ہے جو بڑی قیمتی ہے۔یہ کشمیر میں ارزاں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں نایاب بلکہ شاید ہے ہی نہیں۔ کشمیر میں ہر باشندہ اپنے گھر میں ٹماٹر کی (جو اپنی خوبصورتی اور ذائقے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا)کی بو بوٹی یعنی پودا ضرور کاشت کرتا ہے اور ٹماٹر کی ایک سو بوٹی ضرور ہے (ہمارے ہاں پودا کہلاتا ہے) جو کم از کم پانچ سے سات کلو ٹماٹر پیدا کرتی ہے جو اس کی معیشت کو زیرِ بار نہیں ہونے دیتی۔ کشمیری عوام اگرچہ بجلی (تین روپے فی یونٹ) اور آٹے کی سستی ترین فراہمی پر حکومت کے شکر گزار ہیں لیکن ایسی ہی فیاّضی کے خواہشمند وہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے حوالے سے بھی ہیں۔ قارئین کرام! کشمیری عوام پڑھے لکھے ہیں’ تنومند ہیں’ اپنا کھاتے اور اپنا کماتے ہیں کسی کے ممنونِ احسان نہیں سب سے بڑی بات یہ کہ وہ خود کو آزاد پاکستان کا آزاد شہری سمجھتے ہین۔ پاکستان سے پیار اور اسی کی بات کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر تیرہ ہزار سکئیر کلومیٹرز پر محیط سرسبز و شاداب اور حسین و جمیل خطہ پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرتا تو کیا یہ ہماری کسی نعمتِ غیر مترکبہ سے محرومی نہ ہوتی۔ کشمیر کا پاکستان سے الحاق ہمارے لئے تو نعمت غیر مترکبہ ہے ہی خود کشمیری مسلمانوں کے لئے بھی یہ الحاق خدائے بزرگ و برتر کا فیض ہے ورنہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہماری اس وقت کی کشمیری قیادت نہ کرتی تو شاید ہماری حالت آج کے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے بھی خدانحواستہ ابتر اور خراب ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان سے’ پاکستان کی مسلح افواج سے اور پاکستان کے عوام سے محبت کرتے ہیں اور”ہم ہیں پاکستان ” کا نعرہ بلند کرتے ہیں جس کا سرخیل اور روحِ