دیرینہ دشمنی ایک انسانی ا لمیہ

55

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان


ریاست بہاولپور میں ایک اچھی روایت یہ تھی کہ ہر عید سے قبل علاقہ کے سرکردہ معززین اور بزرگ متحرک ہو جاتے تھے اور لوگوں کی آپس کی دیرینہ دشمنی کو ختم کراکر صلح کرادیتے تھے۔
یہاں کے لوگوں کا خیال تھا کہ دل صاف کئے بغیر اور ایک دوسرے کو معاف کئے بغیر نہ تو روزے ہی قبول ہوتے ہیں اور نہ ہی قربانی اور نہ ہی اس کے گوشت کا ثواب ملتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ریاست بہاولپور میں چند ایک کے علاوہ کسی لمبی چوڑی اور طویل دشمنی کی کوئی بڑی مثال نظر نہیں آتی ۔چھوٹے چھوٹے ہونے والے جھگڑے بھی سال کے اندر اندر اختتام کو پہنچ جاتے تھے ۔مجھے ایسی ہی صلح صفائی کی چند پنچایتوں میں بیٹھنے اور دیکھنے کا موقعہ ملا ہے ۔یہ صلح جو بزرگ دونوں فریقین کی بات غور سے سنتے اور پھر قصور وار کا تعین بھی کرتے وجہ تنازعہ دور کرتے یا اسکا مناسب ازلہ کرنے کی کوشش بھی کرتے مگر قصور وار کی بجاۓ خود اسکی جانب سے متاثرہ فریق سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے اور ان بوڑھے بزرگوں اور بڑوں کے جوڑے ہاتھ دیکھ کر قصور وار بھی شرمندگی سے معافی مانگ لیتا اور دوسرے فریق کا بھی دل پسیج جاتا اور یوں یہ تنازعہ دعا خیر اور آپس میں گلے مل کر ختم ہوجاتا ۔آپس میں مٹھائی کھلا کر دل صاف کر لیتے اور اپنی عید کی خوشیاں بھی دوبالا کرلیتے تھے ۔لوگ اپنے پرانے قتل تک معاف کردیتے تھے ۔میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ وہ اولاد خوش قسمت ہوتی ہے جن کے ماں باپ اپنے ورثے میں ان کے لیے کوئی دشمنی نہیں چھوڑ جاتے ۔ وہ دشمنی کو دراصل جہالت ،خوف اور کمزوری کی علامت قرار دیتے تھے ۔ وہ فرماتے تھے کہ معافی مانگنا یا معاف کردینا اور صبر کر لینا خدا سے محبت کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے وہ کہتے تھے معاف کرنا سب سے بڑی خیرات ہے اور یاد رکھو دشمنی انسان کا سکون چھین لیتی ہے اور انسانی سکون کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔میں آج بھی سوچتا ہوں کہ کسی بھی دیرینہ یا خاندانی دشمنی کا نہ ہونا ہمارے بزرگوں کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے ۔ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ہمارے نبی پاکؐ نے اپنے آخری خطبہ میں تمام پرانی اور دیرینہ دشمنیوں کا خاتمہ کردیا اور سب سے پہلے اپنی خاندانی دشمنی کو معاف کرکےایک عظیم مثال قائم کی تاکہ اسلام کے بھائی چارے کا سبق پوری انسانیت تک پہنچ سکے ۔دشمنی کا خاتمہ دراصل اپنے نبی پاک ؐ کی پیروی کرنا اوران کی ایک اہم سنت پر عمل ہے ۔
کہتے ہیں کہ دوستی اور دشمنی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ ہے ۔جب سے آپس کے مفادات کے درمیان ٹکراو کی صورت پیدا ہوئی ہے تبھی سے انفرادی اور اجتماعی دشمنیوں نے بھی جنم لیا ہے ۔دشمنی اور جھگڑے کی ابتدا ء تو ہابیل اور قابیل سے ہی شروع ہو چکی تھی مگر یہ سلسلہ کسی ایک انفرادی عمل سے بڑھ کر اجتماعی دشمنی میں اور پھر خاندانوں ،قوموں ، ملکوں ،نظریوں ،مذہبوں ،فرقوں ،زبانوں ،علاقوں اور وہاں کی سیاست میں داخل ہو گیا ہے ۔دشمنی کو فوری ختم نہ کیا جاۓ تو یہ مزید بڑھتی اور جڑ پکڑتی چلی جاتی ہے اور جوں جوں یہ پرانی ہوتی جاتی ہے اس میں شدت بھی پیدا ہونے لگتی ہے ۔آج پوری دنیا اس وبا کی لپیٹ میں آچکی ہے ۔ آج دنیا نظریاتی تصادم کا شکار نظر آتی ہے ۔اس دور جدید میں نظریاتی بنیادوں پر یہ خون خرابہ ہماری اندرونی جہالت اور وحشت کو ظاہر کرتا ہے ۔کسی بین الااقوامی غیر متنازعہ فورم کی جانب سے اس دشمنی کا میں کمی لانے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔اس لیے ہر سطح پر ان دیرینہ دشمنیوں کا خاتمہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ہمارے وہ بزرگ جو عید سے قبل دشمنی اور نفرتوں کو ختم کرنے کی جدوجہد کرتے تھے ۔اب وہ اکثرو بیشتر ہم میں نہیں رہے ۔ان میں سے ایک بزرگ اتفاقا” ملے تو میں نے پوچھا کہ اب وہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا ؟ تو فرمایا بھائی ! اب نہ تو وہ صلح کن بزرگ ہی رہے اور نہ ہی محبت پھیلانے کا جذبہ ہی رہا ہے اور نہ ہی اب وہ بڑے دل و دماغ والے لوگ ہی رہے جو بزرگوں کا احترام کرتے ہوے معافی مانگ لیتے یا معاف کردیتے تھے ۔ان کے مطابق پہلے لوگوں کے رویےسے دشمنیوں اور نفرتوں کا پتہ تو چل جاتا تھا لیکن آج کل یہ نفرت اور دشمنی دلوں ہی میں چھپی رہتی ہے اور اندر اندر بڑھتی جاتی ہے ۔اس لیے یہ اور بھی خطرناک ہو چکی ہے ۔علاج تو تب ہو جب بیماری کی تشخیص ہو جاے ٔ ۔
ہمارے ملک میں بےشمار خاندانی دشمنیوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے آے دن دیرینہ دشمنی پر قتل ،جھگڑے اور اغوا معمول بن چکے ہیں ۔قانون بھی ان کے سامنے بےبس نظر آتا ہے ۔دشمنی کا ایک طویل سفر پشت در پشت سے جاری ہے ۔یہ سب کسی قبائلی یا دیہی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ کراچی ،لاہور ،اسلام آباد جیسے ترقی یافتہ شہروں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ناجانے کتنی ہی انسانی نسلیں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ۔میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جو دیرینہ خاندانی دشمنی کی وجہ سے قتل وغارت گری کی باعث صرف گھریلو خواتین تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ ان کے مرد یا تو جیل میں ہیں یا پھر قبرستان میں جا پہنچے ہیں ۔اس طرح کی دیرینہ عداوتوں میں تو بچے بوڑھے اور خواتین تک محفوظ نہیں رہتے ۔جذبات میں اٹھائی ہوئی بندوق جلد کندھوں کا بوجھ بن جاتی ہے ۔دشمن کا ہر وقت کا خوف گلے پڑ جاۓ تو انسان زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا ۔یہ دشمنی کا بوجھ جان لےکر یا جان دے کر ہی ساتھ چھوڑتا ہے ۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھاوا دے کر جان لینے والے زندگی کی قیمت قبرستان کے باسیوں سے اور آزادی کی قیمت جیل والوں کی محرومیوں سے پوچھیں کہ کیسے گرمی سردی کے دن رات جیل کی سلاخوں کے پیچھے کال کوٹھیوں میں گزرتے ہیں ۔کس حسرت سے اپنوں کے منتظر یہ لوگ اپنوں کی صورت دیکھنے کو ترستے ہیں ۔ ان کے بعد ان کے گھروالوں اور بچوں پر کیا گزرتی ہے ؟ یہ بھی دردناک کہانی ہے ۔کہتے ہیں زندگی تو جینے کا نام ہوتی ہے ۔خود بھی جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو ۔محبتیں تقسیم کریں نفرتیں تو پہلے ہی بہت بڑھ چکی ہیں ۔عید قربان پر صرف جانور ہی قربان نہ کریں اپنی اناء ،اپنی ضد ،حسد ،غصہ ،دشمنی ،بدگمانی ،نفرت ،کی قربانی بھی کریں ۔اپنے دلوں کو صاف کرکے ایک دوسرے سے معافی مانگ لیں یا پھر معاف کرکے اپنی بڑائی کا ثبوت دیں ۔تاکہ آپکی قربانیاں قبول ہو سکیں اور ارشاد باری تعالیٰ یاد رہے کہ ” اللہ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ خون ہاں تمہاری پر ہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے ” اسلام دین فطرت اور انسانیت کے لیے پیغام محبت والفت ہے اسلام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ بنی آدم ایک دوسرے سے جڑے رہیں اور ملت واحد بن جائیں ۔یاد رہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.