نصف صدی کاقصہ
میراسرائیکی وسیب میں قیام
ڈاکٹر مظفر عباس
آج کی کہانی کا آغاز خواجہ غلام فرید کی کافی سےکرتے ہیں فی الحال اس کالطف لیجئے،
سبب کافی کو لکھنے کا کچھ تواس وسیب کی رومانی فضائیں ہیں اور کچھ آگے چل کربیان کریں گے
موساگ ملیندی دا گجر گیا ڈینہ سارا
شنگار کریندی دا گجر گیا ڈینہ سارا
کجلا پایم سرخی لایم کیتم یار وسارا
کاگ اڈینڈی عمر ویہانی آیا نہ یار پیارا
روہ ڈونگر تے جنگل بیلارولیم شوق آوارہ
یہ کہانی میرے تدریسی سفرکےاُس دور سے تعلق رکھتی ہےکہ جب تین ساڑھے تین سال تک میں تھل اور کچےکے رومان پرورصحراؤں کی بادیہ پیمائی کرتے ہوئے حصول رزق کی تگ ودو میں مصروف رہا
لیکن کہانی کا یہ دوراتنا پُرکشش ہےکہ بھلایانہیں جاسکتاجوانی کی راتیں تھیں مرادوں کےدن،مظفر گڑھ میرےاس سفر کااولین مستقرتھا
کہ جہاں گورنمنٹ کالج میں ۲۴-ستمبر ۱۹۷۱ع کو میں نےجائیننگ دی تھی اورابھی پوری طرح سنبھل بھی نہ پایا تھااور وہ جو کہا جاتا ہےکہ سرمنڈاتےہی اولے پڑے
دسمبر کی تین تاریخ کو انڈیا کے ساتھ ہماری جنگ چھڑ گئی اور کالج بند ہوگئے-ویسے تو شاید یہ خوشی کی بات ہوتی
اگر چھٹیاں مل جاتیں مگر یہاں تومعاملہ ہی دوسرا ہوا
یعنی کالج اساتذہ کے لئے کالج کھلے رکھنے کے احکامات اوران کی جنگ کے لئے بنائے گئے ڈسٹرکٹ کنٹرول روم میں باری باری رات بھر کی ڈیوٹیاں پھر رات کوکرفیو اور بلیک آؤٹ بھی ہونےلگا،
سینئر اساتذہ کی توبچت ہو گئی مگرنزلہ برعضوضعیف ہم جونئیر اس ڈیوٹی سے نہ بچ سکے اور میں تو جونئیراساتذہ میں بھی سب سے آخر میں آتاتھا تو میری ڈیوٹی توکئی بار لگی ،
ویسےتو یہ قومی خدمت تھی اور ۱۹۶۵ع کی جنگ میں بطور رضاکار سول ڈیفنس میں یہ ڈیوٹی کر چکا تھا
مگراب بہت ذمہ داری کا کام تھا-
تمام رات جاگنااورپورےضلع کی نگرانی کرنااورخود کنٹرول روم کے اپنے ماتحت عملےپرنظررکھنا کار دارد تھا۔
کنٹرول روم ڈسٹرکٹ کونسل کے تہ خانےمیں بنایاگیاتھا،
یہاں ایک لطیفہ ہوامیر ےساتھ،ہوا یوں جب پہلی دفعہ میری ڈیوٹی لگی اوررات کو میں قنوان ہوٹل سے نکلا
تو بلیک آؤٹ تھا،
ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھ رہا تھا، میں حالانکہ کئی مرتبہ ڈسٹرکٹ کونسل کے دفتر جاچکا تھا
مگرگُھپ اندھیرے کی وجہ سےراستہ بھول گیااور کہیں کا کہیں پہنچ گیا-بار بار گھوم پھر کر قنوان ہوٹل چوک پرپہنچ جاتا،
کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا،آخرخیال آیا کہ بشارت کے دفتر جاکرراہی صاحب سے مدد لوں،حکیم عبدالمجیدراہی بھی مظفرگڑھ کاعجیب وغریب کردارتھے
چنانچہ تفصیلی ذکرکےمتقاضی ہیں، یہ ہجرت کےبعد دلی سے یہاں آئےتھےکشفی صاحب کےڈیرے پر رہتے تھےاور ہمہ وقت اُن کےنجی اور”بشارت” کے کاموں میں جُتے رہتےتھے۔شعروشاعری سے شغف تھامگر بیشتر ہزلیہ شاعری کرتے اور مزے لے لےکرسناتےتھے،
اپنی عمر ایک سو چارسال بتاتےاور کہتے تھےکہ اُنہوں نے دلی میں حکیم محمد اجمل خان کےمطب پر کام کیاہوا ہے
اُن کےشاگرد ہیں مگر کبھی کسی نے اُن کوحکمت کرتےنہیں دیکھاتھا،
وہ بلند قامت اورمضبوط کاٹھی کے تھے،ہروقت منہ میں پان، چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی
مگرسب سے بڑی بات یہ کہ حاجت روا تھے اورکبھی کسی کو کسی بھی کام سے منع نہیں کرتے تھے،
بس کہنے کی دیر تھی کہ چل پڑتے تھے،اسی لئے وہ بہت مقبول تھے۔پورے شہر میں ان کا ڈنکا بجتا تھا
اورسب ہی راہی صاحب پر جان چھڑکتے تھے،ایک دفعہ مجھے رات کے تین بجے ملتان جاناتھا،
میرے بہن اوربہنوئی کراچی جاتے ہوئے ریل میں ملتان سے گزر رہے تھےاور والدہ کا حکم تھا کہ
میں ملتان سٹیشن پراُن کوملوں ،مظفرگڑھ سےاُن دنوں بسیں کم ہی چلتی تھیں
چنانچہ اب کیا کیاجائے،فورا”راہی صاحب کا نام ذہن میں آیااوراُن سے بات کی تو بولے ہو جائے گا۔
اب کیا دیکھتا ہوں کہ رات کے دو بجے گھر کے آگے ایک بس کھڑی ہارن دےرہی ہے ۔
میں تو پہلے ہی تیارتھا،راہی صاحب کا کمال دیکھئے کہ مجھے لینے کے لئے لئے اڈے سے پوری بس ہی لے کر آ گئے بلکہ خودبھی ساتھ چل پڑے، اس جملۂ معترضہ کے بعداب پھر اپنی کہانی کی طرف آتے ہیں،
راہی ایک توہمیشہ رات کوصرف دو گھنٹے سوتےتھےدوسرے گرمی سردی ہر موسم میں صرف قمیض پہنا کرتے تھے،سویٹر یا کوٹ سے ہمیشہ بے نیاز رہتے، کہتے تھے کہ اُنہوں نے نےکُشتے کھائے ہوئے ہیں
لہذاسردی نہیں لگتی،ہمیشہ دفتر “بشارت” کے باہرسڑک پرسوتےتھے۔
چنانچہ میں نے وہاں پہنچ کر اُنہیں اُٹھایا اور خداخداکرکے ڈسٹرکٹ کونسل پہنچا-
کم وبیش تین سال تک مظفرگڑھررہا پہلی دفعہ دو سال پھر سال بھر کے وقفے کےبعدایک اورسال،
وجہ اس کی یہ بنی کہ کسی ممبراسمبلی کے عزیز کو مظفر گڑھ پسند آگیااور وہ مجھے
لیہ کالج میں دھکیل کریہاں آگئے مجھے افسوس تو بہت ہوا مگر وہ جو پنجابی محاورہ ہےکہ
کُبے نوں لت لک گئی فائدہ بہت ہوا،ایک تو یہ کہ لیہ کی لق و دق رومانیت آمیز صحرائی فضا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کاموقع میسر آیا دوسرے اُن دنوں لیہ ادبی سرگرمیوں کامرکز تھا،
نسیم لیہ اُن دنوں لیہ میونسپل لائبریری کے نگران تھے، جن کے زیر اہتمام ادبی محافل اور مشاعرے عروج پر تھے
لیہ سول آفیسرزکلب بھی وہاں کے اےسی سید مسعوداحمدشاہ کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر بہت پُر رونق تھا-
شام کو یہاں ٹینس بڑے زورشور سےہوتی تھی،کالج کے پروفیسر بھی ٹینس کھیلتے تھے،
جغرافیہ کےریاض شیخ اس کے بہت ماہرتھےاُنہیں نے مجھے بھی ٹینس سکھائی
پھر یہ کھیل ایف سی کالج تک میرا شوق رہا،
کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ریحان صدیقی بھی مجھے شوق دلاتے رہتے تھے اور یہاں میں روزانہ ٹینس کھیلتا تھا
جب کالج کا پرنسپل بناپھرتو ٹینس کورٹس میرےگھر کے بالکل سامنے تھے،
چلئے پھرلیہ چلتے ہیں،لیہ کالج کا ماحول انتہائی پُرسکون تھا،سید محمد باقر رضوی کالج کے پرنسپل تھے
جو سیدھے سادے اور شریف النفس انسان تھے،عدل وانصاف پر سختی سے کاربند،
یہاں اُن کا ایک لطیفہ آپ کےتفنن طبع کےلئے،لیہ کی شامیں بڑی رومان پرورہوتی تھیں
اور ہم کالج اساتذہ نمازمغرب کے بعد سیر کےلئےنکلتےتھےاور کئی مرتبہ پرنسپل شاہ صاحب ہمارےساتھ ہوتے تھے،
وہ گرمی سردی ہر موسم میں اچکن پہنتے اور ہاتھ میں چھڑی رکھتےتھے،شام کی سیر میں ٹارچ بھی
اُن کے ہاتھ میں ہوتی تھی جس کو وہ وقتا”فوقتا”اوپرنیچےکرتے سامنے کی چیزوں پر پرڈالتےرہتے تھے،
لطیفہ یہ ہواکہ ایک دفعہ ہم سیرکررہےتھے
چودھویں کی رات تھی اور چاند اپنے جوبن پر تھاکسی نے اُن سے کہا شاہ صاحب دیکھیں چاند کتنا خوبصورت لگ رہاہےفورا”اوپر دیکھا اورچاند پر ٹارچ ڈالتے ہوئے کہا،
ہاں واقعی!لیہ میں مجھے ہوسٹل وارڈن بھی بنا دیا گیا تھا،رمضان کا مبارک مہینہ تھا
میں نےطالب علموں اوراساتذہ کے مالی تعاون سےوہاں چھوٹی سی چبوترہ نمامسجدبنوا دی،
فورتھ ائیر کے عبدالغنی کوجوحافظ قرآن تھا اس کاخادم مقررکردیااور تراویح کا بھی اہتمام کیاگیا
جوحافظ عبدالغنی نے ہی پڑھائیں ستائیس رمضان کو ہم نےجشن ختم قرآن کیا،
عبدالغنی بہت نیک تھامگراول نمبرکا شرارتی، میری اُردواختیاری کی کلاس میں تھا
ایک دن مثنوی سحرالبیان پڑھاتے ہوئےجب میں اس شعر پر پہنچا-
وہ مسی وہ اُس کےلب لعل فام / سواد دیار بدخشاں کی شام،تو وہ کھڑا ہوگیاکہ
مجھےشعرسمجھ نہیں آیامیرے باربارسمجھانے پر بھی نہ سمجھا یا پھر شرارت کر رہا تھاکہ
مسی کو سرائیکی میں کیا کہتے ہیں میں تو پہلے ہی سے تیار تھا
چنانچہ میں نے خواجہ غلام فرید کی کافی کا یہ شعر سنا دیا،پھر کیا تھا پوری کلاس عش عش کرنے لگی-
موساگ ملیندی دا گجر گیا ڈینہ سارا
شنگار کریندی دا گجر گیا ڈینہ سارا
اب آپ کو شروع میں میرےاس کافی کے بیان کرنےکا جوازمل گیاہو گا-ایک اور استاد کی کلاس میں یہی حاضری لگاتےوقت کھڑا ہو گیا اور بولا-استاد جی کھڑائے کھنگارسٹی آ واں،
مگراُس کی تمام شرارتیں بس معصومانہ ہوتی تھیں-لیہ کالج ہی کی ایک اور شخصیت یاد آرہی ہے
جو بہت دلچسپ تھی،
ہاسٹل کا قدیم چوکیدار فقیر محمد جوبہت محنتی اور مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ اور
اساتذہ میں یکساں مقبول تھا-اُس دور میں کالج کےارد گرد آبادی نہیں تھی فقط ریت کےٹیلے تھے،
فقیرمحمد کامعمول تھاکہ رات کومیری چارپائی ایک ٹیلے پر بچھا دیتا تھا
اور ساتھ بیٹھ جاتااور پھر ایسے کہانیاں سنانا شروع کرتا کہ الللہ دے،بندہ لے،
کہانی اس انداز سے سناتا کہ میں تو سنتے سنتےسو ہی جاتاکبھی کبھی اپنے ذاتی قصےبھی سنانےلگتا،کہانی شروع کرنےکابھی اُس کااپنا خاص اندازتھاہمیشہ یوں شروع کرتاتھا-
سائیں! ہک ہابادشاہ،اساں دا تُہاڈا الللہ بادشاہ-بس پھر معلوم نہیں مجھے کن کن دنیاؤں میں لے جاتا
اور جب میں بیدار ہوتا تو فجر کی اذان ہو رہی ہوتی تھی،دلچسپ کہانیاں اوپر سی مٹھری سرائیکی زبان،
مجھے وہ مزا آج بھی نہیں بھولا-کہانی ذرا لمبی ہوگئی ہے
چنانچہ خواجہ صاحب کی کافی کومکمل کرکےاپنی بات یہاں ختم کرتے ہیں
حک دم عیش دی سیج نہ مانڑیم بخت نہ ڈتڑم وارا
پڑھ بسم اللہ گھولی ام سرکوں چاتم عشق اجارا
رانجھن مینڈا میں رانجھن دی روز ازل دا کارہ
ہجر فریداؔ لمبی لائی جل گیوم مفت وچارا ————————————
07/06/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/06/p3-1-scaled.webp