یوم تکبیر اور قومی سلامتی کے تقاضے۔۔

26

تحریر : فیصل زمان چشتی

اس دفعہ 28 مئی کو” یوم تکبیر ” انتہائی تزک و احتشام سے منایا گیا ۔ اس دفعہ چھبیس سال بعد حکومت کو یاد آیا کہ چھٹی کسی بھی دن کو منانے کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہے اس لیے اس دفعہ یوم تکبیر پر عام تعطیل کا اعلان کیا گیا لیکن اتنی عجلت اور افراتفری میں کیا گیا کہ شام پانچ بجے پتہ چلا کہ کل چھٹی ہے اگر یہی اعلان چند گھنٹے پہلے کردیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ چھبیس برس گزرنے کے بعد ن لیگ والوں کو یاد آیا کہ اس دن چھٹی کرنا ضروری ہے ورنہ 2013 سے 2018 تک ن لیگ کی حکومت رہی میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم رہے لیکن یہ کام نہ ہوا جو اس دفعہ کیا گیا ۔ پاکستان نے اپنے ایٹمی دھماکے 28 مئی 1998 میں میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں کیے تھے اس لیے ن لیگ والے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ میاں محمد نواز شریف کو دیتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی والے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو دیتے ہیں کہ انہوں نے اس ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو اس سارے پروگرام اور منصوبے کے روح رواں تھے اور پورا پروگرام ان کی زیر نگرانی مکمل ہوا نے پاکستان کی سالمیت کو مستحکم اور مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اس کے ساتھ ساتھ سابق صدور غلام اسحاق خان اور جنرل محمد ضیاء الحق اور افواج پاکستان کے کردار کو فراموش کرنا سراسر زیادتی ہوگی۔ یہ ایک ایسا کٹھن مشن تھا جس کی تکمیل میں کئی سال لگے اور ہر ایک نے ملک خداداد پاکستان کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنا اپنا تاریخی کردار ادا کیا۔ کسی ایک کو بھی کریڈٹ نہ دینا سراسر نا انصافی ہوگی۔ اگر دیکھا جائے تو اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ہزاروں لوگ مصروف عمل رہے اور وہ تمام افراد اور ادارے مبارکباد اور شاباشی کے مستحق ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس منصوبے کے ساتھ جڑے رہے اور بلا خوف و خطر اپنی خدمات سرانجام دیں۔ جن کی انتھک جدوجہد اور قربانیوں نے پوری دنیا کے سامنے اس ملک کا وقار بلند کیا اور ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس حوالے سے یہ دن نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہ دن ہمیں اس بات کا احساس بھی دلاتا ہے کہ عزم و ہمت اور حوصلے اور یقین کے سامنے دنیا کی کوئی رکاوٹ اور طاقت ٹھہر نہیں سکتی۔ پہاڑوں کا سینہ چیرا جا سکتا ہے اور صحراؤں کو نخلستان میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ دنیا کے لئے یہ سب ناقابل یقین اس لیے بھی تھا کہ جو ملک انتہائی غریب اور پسماندگی کا شکار ہے قرضوں اور امدادوں کے سہارے چل رہا ہے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی امپورٹ کرتا ہے ۔ اتنا عظیم اور ناقابل یقین کام کیسے کر سکتا ہے۔ لیکن اس ملک کے چند ذہین اور محب وطن لوگوں نے وہ کر دکھایا جو ایک معجزہ تھا اور دنیا ابھی تک محو حیرت ہے۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد بہت سی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ امداد سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔ انعامات بھی گئے ۔ مگر ہمارا موقف یہ تھا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے اور ہماری بقا بھی اسی میں پنہاں ہے ۔ اگر ہندوستان پہل نہ کرتا تو ہم کبھی بھی ایسا نہ کرتے اور حقیقت بھی یہی تھی دنیا ہمارے موقف کو جھٹلا بھی نہیں سکتی تھی۔
پاکستان شروع دن سے ہی امن کا داعی رہا ہے۔ اس نے تمام اقدامات اپنے دفاعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کیے ہیں۔ اور ان گزرے چھبیس سالوں میں پاکستان نے پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور بڑے پروقار طریقے سے پوری دنیا میں امن و آشتی کو پروان چڑھانے میں اپنا تاریخی کردار ادا کرتا رہا ہے اور ثابت کیا ہے کہ پاکستان دنیا میں امن کی کوششوں کو تقویت دینے میں سب سے آگے ہیں۔
کسی بھی ملک کی سلامتی اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے بغیر ناممکن ہے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت تو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے مگر نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا ذمہ کس کے سر جاتا ہے۔ کون سی قوتیں ہماری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کررہی ہیں یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ اگر ہمیں نظریہ پاکستان کے بارے میں علم ہے تو نظریاتی سرحدیں بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ نظریہ پاکستان ہی ہماری نظریاتی سرحدوں کا تعین کرتا ہے۔ پاکستان ان ریاستوں میں شامل ہے جو ایک نظریہ کے پیش نظر معرض وجود میں آئی ہیں ۔ مسلمان ہونا اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہماری نظریاتی اساس ہے۔ 75 سال بعد کیا ہم اپنے نظریے کو بچانے میں کامیاب ہوئے یا نہیں یہ سوال ہمیں خود سے کرنا ہے جواب خود بخود ہمیں مل جائے گا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم نے اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اب تک کیا کیا ہے۔ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے پورا معاملہ سمجھ میں آجائے گا ۔
آج انفرادی بقا کے ساتھ ساتھ اجتماعی بقا کے معاملات بھی اقتصادیات سے منسلک ہیں اگر آپ کی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے تو ساری دنیا آپ کی طرف دیکھ رہی ہو گی ” جس دے گھر دانے اس دے کملے وی سیانے ” کے مصداق آپ اقوام عالم میں ایک پروقار مقام پر براجمان ہوں گے اور دنیا آپ کی بات سنے گی آپ کا احترام کرے گی لیکن اگر آپ 75 سال بعد بھی کشکول لے کر گلی گلی گھوم رہے ہیں کہ اللہ کے نام پر دے جا ، جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھلا تو عزت تو کیا آپ کی کوئی بات بھی سننا گوارا نہیں کرتا ۔ صرف گولہ بارود، اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار رکھنے سے سالمیت اور بقا کی ضمانت نہیں ملتی بلکہ ایک مضبوط معیشت پر استوار ملک ہی دنیا میں قائم رہ سکتا ہے اور یہ خود بخود نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے پوری ایمانداری سے کام کرنا پڑے گا اداروں کو مستحکم اور مضبوط کرنا پڑے گا کرپشن کو نتھ ڈالنی پڑے گی ۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام ایکٹو کرنا پڑے گا ۔ ہر شعبے میں شفافیت دکھانی پڑے گی امپورٹ اور ایکسپورٹ میں توازن لانا پڑے گا تب جا کر مقاصد اور اہداف حاصل ہوتے ہیں۔ اگر صرف ہتھیار ہی سالمیت اور بقا کے ضامن ہوتے تو رشین فیڈریشن کبھی بھی تنکوں کی طرح نہ بکھرتی اور اس کے حصے بخرے نہ ہوتے۔ اس مثال سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہییں ہر شعبے میں ریکنسیلیشن کرنی چاہیے۔ اوپر سے نیچے تک پورا سسٹم ٹھیک کرنا ہوگا۔ اداروں کے سربراہان میرٹ پر منتخب کئے جائیں اور وہ عہدے خالی نہ چھوڑے جایئں۔ لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہوگا۔ انتظامی خرچوں پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہر جگہ پر عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ کرپشن کو جڑوں سے ختم کرنا ہوگا اور اس کے لئے پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی کرنی ہوگی، کوئی شخص یا ادارہ مقدس گائے کے مقام پر فائز نہیں ہوگا۔
اج کل دنیا جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اگر ہم اس کے ساتھ نہ چل سکے تو یہ ہمیں روند آگے نکل جائے گی اور ہم تاریخ کے اوراق میں صرف اک خواب اور حسرت و یاس کا استعارہ ہی نظر آئیں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.