غصے کے نشان

37

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
غصہ کے بارے میں حدیث مبارک ہے کہ پہلوان وہ نہیں جو طاقتور ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان اور بہادر وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔ایک اور ارشاد نبی ؐ ہے کہ “جو اپنے غصہ کو روکے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے عذاب کو ہٹا لےگا ۔پھر فرمایا “جب تم میں سے کسی کو کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آے تو بیٹھ جاےُ اس تدبیر سے غصہ چلا گیا تو ٹھیک ورنہ لیٹ جاے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ غصہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے جو پی گیا اس نے آگ بجھا لی اور جو ضبط نہ کرسکا وہ پہلے خود اس میں جلتا ہے ۔ارسطو نے کہا تھا کہ غصہ ہمیشہ حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے ۔ سقراط نے کہا کہ عقل مند کی پہچان غصہ کے وقت ہوتی ہے ۔بزرگ بتاتے ہیں کہ غصہ اگر ختم بھی ہوجاے تو اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے جو کبھی مٹتے نہیں ہیں ۔
کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو غصہ بہت آتا تھا غصے میں بے قابو ہو کر وہ برا بھلا کہتا ۔ جب غصہ اترتا تو اسے خود بھی پشیمانی ہوتی ۔ وہ اپنے غصے پر قابو پانا چاہتا تھا لیکن باوجود کوشش کے کامیاب نہ ہو پاتا تھا ایک دن اس نے سنا کہ ایک دوسرے گاؤں میں ایک ایسا عالم رہتا ہے جو اللہ والا ہے اور لوگوں کو مسئلوں کے حل بتاتا ہے ۔ اس نے سوچا چلو میں بھی اپنا مسئلہ پیش کر کے دیکھتا ہوں شاید کچھ تدبیر نکل آئے وہ اس عالم کے پاس گیا اور اُن کو بتایا کہ “مجھے بے حد غصہ آتا ہے” عالم نے کہا “جب تمہیں غصہ آئے تو تم جنگل میں جا کر درخت میں ایک کیل ٹھونک دیا کرو” آدمی نے کہا “یہ بھلا کون سا حل ہے ؟” عالم نے کہا ” ذرا تم ایسا کرو تو سہی” آخر اس نے یہی کیا اسے جب بھی غصہ آتا، وہ جنگل کی طرف دوڑتا اور تیزی سے کیلیں درخت میں ٹھونکتا جاتا آخر دن گذرتے گئے اسے جب غصہ آتا، وہ یہی عمل دہراتا آخر ایک دن اس کا غصہ کم ہو کر ختم ہو گیا اور اس نے جنگل جانا چھوڑ دیا ایک دن وہ دوبارہ عالم کے پاس گیا اور کہا کہ “آپ کی بات پر عمل کر کے میرا غصہ ختم ہو گیا ہے” عالم نے کہا “مجھے اس جگہ پر لے چلو جہاں تم وہ کیلیں ٹھونکتے رہے ہو ” وہ دونوں وہاں چلے گئے ۔ عالم نے دیکھا کہ ایک درخت تقریباً آدھا ٹھوکی ہوئی کیلوں سے بھرا پڑا ہے عالم نے کہا”اب ان کیلوں کو ایک ایک کرکے باہر نکالو” اس نے بہت مشکل سے وہ کیلیں نکال لیں تو دیکھا کہ وہاں چھوٹے بڑے بے شمار سوراخ بن چکے تھے ۔ عالم نے کہا “یہ وہ سوراخ ہیں جو تم غصے میں آ کر لوگوں کے دلوں میں بھی کرتے تھے دیکھو کیل تو نکل گئے مگر سوراخ باقی ہیں اسی طرح تمہارے غصے کی کیلوں کے نشان ہر اس دل پر موجود ہونگے جن پر تم نے غصہ کیا تھا وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اس نے اللّٰه اور اس کے بندوں سے معافی مانگی اور عالم کا شکریہ ادا کیا جس نے اسے آئینہ دکھایا سبق یہ ہے ہمیں بھی چاہیے کہ بولتے وقت دیکھ لیا کریں کہ ہم نے لوگوں کے دلوں میں کہیں کیلیں تو نہیں ٹھونک رہے ہیں اگر وہ کیلیں نکل بھی گئیں تو نشان باقی رہ جائیں گے۔بےشک جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہوتے ہیں ۔کہتے ہیں رستم زماں گاما پہلوان کو ایک کمزور سے دوکاندار نے غصے میں آکر وزن کا باٹ مار کرزخمی کردیا سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے گامے پہلوان نے سر پر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا لوگوں نے پوچھا پہلوان جی آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہ تھی آپ دکاندار کو ایک تھپڑ ہی مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی تو گامے پہلوان نے جواب دیا مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا بلکہ میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زماں رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی اور مجھے غصہ نہیں آےگا ۔گویا غصہ کمزوری کی علامت ہوتا ہے اور برداشت طاقت اور بڑائی کا نام ہوتا ہے بلند ہمت اور بلند حوصلہ لوگ ہی اس شان کے مالک ہوتے ہیں اور اپنے پر زیادتی کرنے والوں پر اختیار رکھتے ہوے بھی بدلہ نہیں لیتے ۔اللہ کو دو گھونٹ بہت پسند ہیں ایک صبر کا گھونٹ اور دوسرا غصے کا کڑوا گھونٹ ہوتا ہے
ہم سب کو علم ہے کہ غصہ ایک انسانی عمل ہوتا ہے جو سب کو آتا ہے لیکن جب یہ بڑھتا ہے یا اس پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے یا بےحد منفی ہو جاتا ہے تو اس سے پریشانی ہی ہوتی ہے ایک تحقیق کے مطابق چاہے کام کرنے میں پریشانی ہو یا دوسروں کے ساتھ ذاتی تعلقات میں غصہ کرنے کے بالاخر نقصانات ہی ہوتے ہیں غصے کےاسباب بیرونی ہوں یا داخلی ہر شخص اپنے غصہ کے اظہار کے لیے مناسب طریقہ کا انتخاب کرتا ہے اور ہر شخص کا ماحول کی نوعیت کے مطابق اسکے غصے کا طریقہ اظہار بھی مختلف ہوتا ہے ۔ماہرین کے مطابق غ غصہ قابو کرنے میں بہت زیادہ مشقت درکار ہوتی ہے جس کے لیے واقعی ایک طاقتور یا پہلوان ہونا ضروری ہے ۔غصے کے وقت اس کا اظہار عموما” تین طریقوں سے کیا جاتا ہے یا تو اظہار کریں گے یا اسے دباتے ہیں یا پھر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے برداشت کرنا بھی کہا جاتا ہے ۔کہتے ہیں جب لوگ غصے میں ہوں تو ان کی بات غور سے سنیں ان کی اصل حقیقت تب ہی سامنے آتی ہے ۔ارشاد نبوی ؐ ہے کہ “جب تم میں سے کسی کو غصہ آے تو اسے خاموشی اختیار کر لینی چاہیے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ غصہ کا علاج خاموشی کے ذریعے کرو ” خاموشی کا مطلب برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہی ہوتا ہے ۔یہ منفی غصہ ہی تمام معاشرتی مشکلات اور برائیوں کی جڑ ہوتا ہے ناجنے کتنے ہی گھر اجڑ گئے اور کتنے ہی خاندان بکھر گئے جس کا سبب غصے کی چنگاری کے سوا کچھ نہ تھا بےشمار بچے ہیں جو غصہ میں طلاق کے نتیجے میں برباد ہوے ُ اس لیے غصے کو ماچس کی تیلی بھی کہا جاتا ہے جو دوسروں کو جلانے سے پہلے خود جلتی ہے غصہ اکثر منفی ،پرتشدد اور نقصان دہ ہوجاتا ہے ۔اس منفی غصہ کی ماہر ین نفسیات چند وجوہات بتاتے ہیں جن میں نیند کا پورا نہ ہونا ،ورزش نہ کرنا،منفی سوچ رکھنا ،تکبر یا احساس برتری ،ذہنی دباو ُ ،لامحدود خواہشات و توقعات ،ضروت سے زیادہ کام کا بوجھ وغیرہ سر فہرست ہیں اسی لیےمنفی غصہ اور غضب کو حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ غصہ کی حالت میں انسان اپنے قابو سےبھی باہر ہو سکتا ہے اور کوئی ایسا بڑا نقصان کر بیٹھتا ہےجس کا ازلہ ممکن نہ ہوسکے لیکن اگر غصہ مثبت اور تعمیری ہو تو زندگی کامیابی کے لیے جدوجہد کا راستہ بن جاتا ہے واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں “کم ظرف کا غصہ اسے کھا جاتا ہے اور اعلیٰ ظرف کا غصہ اسے بنا جاتا ہے ” یہ اعلیٰ ظرفی مقصدیت کے شعور سے پیدا ہوتی ہے یعنی انسان جب اپنے غصے کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے گا کبھی کبھی زندگی میں کسی طعنے دینے پر آنے والا غصہ انسان کے لیے کامیابی کی راہیں کھول دیتا ہے ۔محمدعلی کلے مشہور باکسر کو اپنی سایکل چوری پر اتناغصہ آیا کہ وہ انتقاما” دنیا کا سب سے بڑا اور تاریخی باکسر بن گیا ۔وہ ہمیشہ کہتا تھا اگر میری سایکل چوری نہ ہوتی تو میں باکسنگ نہ سیکھتا ۔بہر حال غصہ منفی ہو یا مثبت اپنے نشان ضرور چھوڑتا ہے جو زندگی بھر مندمل نہیں ہوتے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.