زندگی اور موت کا ذائقہ

182


کیا آپ نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ کیوں فرمایا ہے
کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے
یہ کیوں نہیں کہاکہ ہر روح کو موت آنی ہے یا ہر ذی روح نے موت کے ہاتھوں ختم ہو جانا ہے ۔
آخر یہ ذائقہ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے ۔
سائنس کے مطابق ہر انسان کے چکھنے کی حس مختلف اور الگ الگ ہوتی ہے
اگر کسی کو کوئی چیز پسند ہی نہیں تو اس کا ذائقہ اسے برا ہی لگے گا
دراصل چیز کا ذائقہ اس میں ڈالے گئے اجزا پر منحصر ہوتا ہے اس لیے ہر شخص کی موت کا ذائقہ بھی
اس کے اعمال کے مطابق ہی ہوگا
کہتے ہیں کہ ہر جاندار نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور یہی وہ مشکل گھڑی ہے جس سے بچنا ممکن نہیں
شاید ہر شخص کی موت کا ذائقہ اس کے اعمال سے ترتیب پاکر ایک دوسرے سے مختلف ہوگا
ابھی ہم نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اس لیے ابھی سے اپنے اعمال اور معاملات ایسے درست کر لیں
کہ موت کا ذائقہ کڑوا نہ لگے ۔
ہمارے اباجی فرماتے تھے کہ موت کا بھی ایک ذائقہ ہے جو میٹھا بھی ہے اور کڑوا بھی ہے ۔
اگر موت کا ذائقہ اچھا کرنا چاہتے ہو تو پہلے اپنی زندگی کا ذائقہ بہتر بناؤ
کیونکہ جہاں خدا نے موت کا ذائقہ بنایا ہے تو زندہ رہنے کا ذائقہ بھی ضرور بنایا ہے
ہماری زندگی کا ذائقہ ہی دراصل ہماری موت کا ذائقہ ہے
جسے ہم نے خود اپنے اعمال اور معاملات سے ترتیب دینا ہے ۔
اباجی کہتے تھے ذائقہ کا مطلب دراصل محسوس کرنا ہوتا ہے
چاہے وہ کسی بھی لذت ،مزے یا سواد یا لذت کو جس کا احساس زبان سے
حاصل ہو یا ذہن سےہی کیوں نہ ملے ۔
بنیادی طور پر ذائقے دو ہی تصور کیے جاتے ہیں یعنی “میٹھا اور کڑوا ” ۔
ذائقہ ایک مستقل کیفیت کا نام تو ہے
مگر اس کا وجود مستقل نہیں رہتا
جیسے ایک مشروب پی لیں تو اس کا ذائقہ کچھ دیر تو رہتا ہے
لیکن رفتہ رفتہ ذائقے والی کیفیت کم ہوکر ختم ہوجاتی ہے اور پھر دوسرا ذائقہ
اس کی جگہ لے لیتا ہے لیکن تلخ اور کڑوا ذائقہ کبھی نہیں بھولتا
جبکہ اچھا اور میٹھا یا دل کو بھانے والا ذائقہ اکثر یاد نہیں رہتا ۔
کہتےہیں موت انسانی زندگی کا سب سے مشکل اورسخت وقت ہوتا ہے
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر ذی روح کو یہ ذائقہ چکھنا ہے
گویا اس مشکل مرحلے سے گزرنا ہی ہے ۔میرے استاد شاہ محمد مرحوم فرماتے تھے
کہ زندگی اللہ کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جس کا لاکھ شکر کریں ادا نہیں کیا جاسکتا
لیکن اس کا اصل ذائقہ تب ہی حاصل ہوتا ہے جب اسے اپنے رب کے حکم اور ہدایت کے مطابق بسر کریں ۔
اپنی زندگی کی مشکلات اور تلخیاں دور کرنے لیے دوسروں کی زندگی میں شامل دکھوں
اور تکالیف کو دور کرکے ہی اپنی زندگی کا سواد یا ذائقہ ملتا ہے ۔
اپنی زندگی میں خوشیاں بھرنے کے لیے دوسروں کے دکھ بانٹے پڑتے ہیں ۔
صرف اپنے لیے جینا کوئی جینا نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی زندگی کا اصل لطف ہی حاصل ہوتا ہے ۔
اپنی زندگی کا لطف لینے کے لیے دوسروں میں خوشیاں بانٹنا ہی انسانیت کی معراج ہوتی ہے ۔
دوسروں کو دکھ دینے والوں کی زندگی اور موت کا ذائقہ تلخ ہی ہوتا ہے ۔
اسی لیے موت کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑتا ہے کیونکہ یہی آخری ذائقہ ہوتا ہے ۔
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ذات باری تعالیٰ نے انسان کو انسانیت کی خدمت کے لیے دنیا میں بھیجا ہے
کہتے ہیں اپنی تکلیف تو جانور بھی محسوس کر لیتے ہیں انسان کو اشرفالمخلوقات اسی لیےکہا جاتا ہے
کہ وہ دوسروں کے درد کی لذت کو بھی اپنے دکھ کی طرح محسوس کرتا ہے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں موت کا ذائقہ تو ہر نفس چکھتا ہے
لیکن زندگی کا ذائقہ کم کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے
زندگی سات بڑی سچائیوں کا شربت ہے
پہلی سچائی اللّٰہُ ہےآپ جب تک اللّٰہُ پر پختہ ایمان نہیں لاتے آپ زندگی کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے۔
دوسری سچائی نعمت ہے آپ جب تک زندگی کو نعمت نہیں سمجھتے
آپ زندگی کے ذائقے کو نہیں سمجھ سکتے
تیسری سچائی محبت ہے آپ جب تک دوسروں سے مذہب۔ نسل۔
زبان اور طبقے سے بالاتر ہو کر محبت نہیں کرتے
آپ زندگی کے ذائقے کو محسوس نہیں کر سکتے
چوتھی سچائی درگزر ہے۔ آپ جب تک دل بڑا نہیں کرتے آپ دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کرنا نہیں سیکھتے آپ زندگی کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے
پانچویں سچائی بے پروائی ہے آپ جب تک موت، رزق، اور سٹیٹس سے بے پروا نہیں ہوتے زندگی کا ذائقہ اس وقت تک آپ کے قریب نہیں آتا
چھٹی سچائی علم ہے آپ جب تک علم کی تلاش میں اپنی ایڑھیاں زخمی نہیں کر لیتے آپ کو زندگی کا ذائقہ نہیں مل سکتا
ساتویں سچائی سفر ہے آپ جب تک سفر نہیں کرتے آپ زندگی کے ذائقے سے محروم رہتے ہیں اور یہ سچائیاں آپس میں ملتی ہیں تو زندگی کا شربت بنتا ہے اور آپ جب تک یہ شربت نہیں پیتے زندگی کا ذائقہ آپ کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ زندگی کے ذائقے کی طرح ہی بےشک اللہ نے انسانی موت میں ذائقہ رکھا ہے اب وہ کیسا ہے میٹھا یا کڑوا ؟ اس کا دارومدار انسانی اعمال اور اسکے معاملات پر منحصر ہے ۔کہتے ہیں عبادات میں تو معافی ہو سکتی ہیں مگر معاملات کی معافی نہیں ہے اس لیے ان دونوں کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے ۔یاد رہے کہ دوسروں میں آسانیاں تقسیم کرنے سے انسان کا اپنا راستہ خود بخود ہموار اور آسان ہو جاتا ہے
جب تک سانس چل رہی ہے تو سمجھ لو کہ ہماری توبہ سنی جارہی ہےنیک اعمال ہوسکتے ہیں گناہ چھوڑے جاسکتے ہیں اس سے پہلے کہ زندگی میں وہ لمحہ آجاے جہاں اعمال اور توبہ کے دروازے بند ہوجائیں اور موت کا ذائقہ چکھنے کا لمحہ آپہنچے
اپنے اللہ کو راضی کر لو توبہ کا راستہ اختیار کرو یہ راستہ اور موقعہ آخری سانس تک خدا کی سب سے بڑی نعمت کے طور پر موجود رہتا ہے ۔کیا کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ ہم ہر روز موت کے قریب تر ہوتے جارہے ہیں
ناجانے کب ہمارے اعمال اور معاملات کا رجسٹر بند ہو سکتا ہے اور موت کا ذائقہ انسان کے لیے آخری ذائقہ ہے جسے چکھتے ہی توبہ کے دروازے بھی بند ہوجاتے ہیں تو پھر جس نے دنیا میں اپنے معاملات کو اپنی زندگی میں ہی درست کر لیا تو گویا اپنے آپ کو دوزخ سے بچا لیا
بےشک وہ صیح معنوں میں زندگی اور آخرت کی کامیابی سمیٹ لیتا ہے ۔کہتے ہیں موت حکم الہی کی ہمیشہ منتظر رہتی ہے حکم ملنے پر پلک جھپکنے کی دیر نہیں کرتی اور حکم کی تعمیل کرتے ہوے اپنے ہدف کو لیکر بارگاہ الہی میں پیش کردیتی ہے
میں نے بےشمار لوگوں کو اپنے سامنے موت کے منہ میں جاتے ہوے دیکھا ہےاور ناقابل یقین حد تک تکلیف میں دم نکلتے بھی دیکھا ہے اور انکے اپنوں اور قریبی لوگوں کو انکی آخری مشکل آسان کرنے کی دعائیں کرتے بھی دیکھا ہے
لیکن بعض اموات تو ایسی ہوتی ہیں کہ گویا ابھی تو تھے اور ابھی نہیں رہے میں نے ایک بزرگ کو فوت ہوتے ہوے دیکھا جو اپنے گھروالوں کے درمیان بیٹھے تھے
اچانک کہنے لگے ذرا ادھر ادھر ہوجاو وہ آگئے ہیں اور پھر وعلیکم السلام کہا اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوے روح پرواز کر گئی
میرے والد بالکل ٹھیک ٹھاک گھر میں اپنے نوکر “اللہ والے “کے ساتھ گپ شپ کر ہے تھے کہ دروازے پر بیل بجی
ملازم سے بولے دیکھو لگتا ہے پوسٹ مین آگیا ہے
وہ واقعی پوسٹ مین ہی تھا جو ان کی آخری پنشن لے کر آیا تھا
بڑے اطمینان سے پنشن وصول کی اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا
میں تمہارا ہی منتظر تھا اب زیادہ دیر تمہیں یہ زحمت نہیں کرنی پڑے گی
وہ پوسٹ مین کہنے لگا خان صاحب کیسی بات کرتے ہیں جناب ؟ اللہ آپ کو ہمارے سروں پر سلامت رکھے
میرے لیے تو یہ ایک اعزاز کی بات ہےاس بہانے آپکی زیارت ہو جاتی ہے
اس کے جانے کے بعد ملازم اللہ والا چائے لے کر آگیا
اسے کہا کہ میری چائے رکھ دو ۔ٹھنڈی ہونے دو ۔تم باہر جاکر چائے پی لو
وہ چائے پی کر لوٹا تو ان کی چائے ابھی بھی گرم تھی لیکن روح پرواز کر چکی تھی
لگتا یوں تھاکہ نیند آگئی ہے اور وہ سورہے ہیں ۔آخری پنشن ملنی تھی سو ملی مگر رزق ختم ہو چکا تھا
اس لیے چائے نہ پی سکے اور موت کا ذائقہ نصیب ہو گیا ۔
بےشک فرشتے سلام انہیں ہی پیش کرتےہیں جنہوں نے اپنے رب کو خوش کردیا اور جن کے دینی اور دنیاوی معاملات درست رہے ہوں
انسانیت کی خدمت کو عبادت اور رضا الہی کا ذریعہ سمجھتے ہوں یقینا” موت کے اس ذائقے کی مٹھاس وہی محسوس کرتےہیں جو لوگوں کی زندگیوں میں مٹھاس بھرتے ہوں ۔
زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے
موت اٹل ہے جس سے فرار ممکن نہیں تو رخت سفر تیار رکھیے
پتا نہیں کب ،کہاں اور کیسے بلاوا آجائے ؟
اللہ تعالیٰ ہمیں سب کو موت سے پہلے پہلے موت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے آمین !

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان

01/04/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/04/p3-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.