زمین کے قانونی معاملات،اورجوڈیشل ممبر کا اھم کردار

تحریر: محمد ندیم بھٹی

9

زمین اور انصاف کا تعلق اتنا پرانا ھـے جتنا انسان کی بقا کا۔ زمین ھی رزق کا ذریعہ بھی ھـے اور تنازعات کی جڑ بھی۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں زمین کے معاملات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ھـے کیونکہ یہاں کا کسان اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ زمین کو سمجھتا ھـے۔ زمین کے ریکارڈ سے لے کر اس کی ملکیت کے تنازعات تک ہر مرحلے پر شفافیت اور انصاف کے تقاضے نہ صرف کسان کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ریاستی نظام پر عوام کے اعتماد کو بھی کم یا زیادہ کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ھـے جہاں بورڈ آف ریونیو کا عدالتی رکن یعنی جوڈیشل ممبر اپنا بنیادی کردار ادا کرتا ھـے۔ اس کا منصب بظاہر ایک بیوروکریٹک سیٹ لگتا ھـے لیکن دراصل یہ عدلیہ اور انتظامیہ کے سنگم پر کھڑا ایک مضبوط ستون ھـے جو زمین اور قانون کے درمیان پل کا کام کرتا ھـے۔
پاکستان میں بورڈ آف ریونیو کو زمین کے ریکارڈ کا سب سے بڑا ادارہ تصور کیا جاتا ھـے۔ اس ادارے کے تحت نہ صرف زمین کی پیمائش، انتقالات اور مالیت کا تعین ہوتا ھـے بلکہ زمین سے جڑے ہوئے مقدمات بھی نمٹائے جاتے ہیں۔ جوڈیشل ممبر کا کام بنیادی طور پر ان مقدمات میں انصاف فراہم کرنا ھـے۔ وہ ریونیو کورٹس کی نگرانی کرتا ھـے اور یہ دیکھتا ھـے کہ تحصیل دار، پٹواری اور دیگر اہلکار قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ اس کا ایک اہم کام یہ بھی ھـے کہ وہ زمین سے متعلقہ اپیلوں کو سنتا ھـے اور اس بات کو یقینی بناتا ھـے کہ کسی کمزور یا لاچار کسان کے ساتھ ناانصافی نہ ھو۔ یوں یہ عہدہ محض ایک کاغذی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ براہِ راست عوام کی زندگی پر اثر انداز ھوتا ھـے۔
ماضی میں عام تاثر یہ رہا ھـے کہ ریونیو معاملات میں کرپشن اور ناانصافی بہت زیادہ ھـے۔ خاص طور پر پٹواری کلچر اس نظام کی سب سے بڑی کمزوری سمجھا جاتا ھـا۔ دیہاتوں میں کہاوت مشہور تھی کہ “پٹواری کے بغیر زمین کا کاغذ نہیں ہلتا”۔ کسان برسوں زمین کے کاغذات کے پیچھے رلتا رہا۔ کبھی انتقال درج نہ ھوتا، کبھی فردِ ملکیت میں تبدیلی نہ کی جاتی اور کبھی زمین کے ریکارڈ کو غائب کر دیا جاتا۔ ایک پٹواری کے دفتری کمرے میں غریب کسانوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی تھیں، لیکن کاغذات صرف ان لوگوں کے بنتے جو یا تو سفارش لے کر آتے یا پھر جیب گرم کر کے۔ یہی وجہ ھـے کہ ہزاروں کسان اپنی زمینوں کے اصل مالک ھونے کے باوجود عدالتوں اور دفاتر کے چکر لگاتے رہتے۔ کئی دفعہ یہ کاغذات غائب کر دیے جاتے اور کسی طاقتور کے حق میں جعلی انتقال کر دیا جاتا۔ یوں ایک کسان اپنی زمین کھونے پر مجبور ھو جاتا اور برسوں انصاف کے لئے دھکے کھاتا۔
ایسے میں جوڈیشل ممبر بورڈ آف ریونیو کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ھـے کہ وہ نہ صرف اپیلوں کو انصاف کے مطابق نمٹائے بلکہ پورے نظام کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہی وجہ ھـے کہ حالیہ برسوں میں اس عہدے کو کارکردگی کی کڑی شرائط کے ساتھ جوڑ دیا گیا ھـے تاکہ یہ محض ایک رسمی سیٹ نہ رھے بلکہ حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل حل کرنے والا ادارہ بن سکے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حال ھی میں بورڈ آف ریونیو کے نظام میں بنیادی اصلاحات متعارف کروائیں ہیں۔ ان اصلاحات میں سب سے نمایاں قدم کارکردگی کے پیمانے یعنی “کے پی آئیز” (Key Performance Indicators) کا نفاذ ھـے۔ اس کا مطلب یہ ھـے کہ بورڈ کے تمام افسران بشمول جوڈیشل ممبر کی کارکردگی اب باقاعدہ پیمانوں کے تحت جانچی جائے گی۔ ان پیمانوں میں مقدمات کے فیصلے کرنے کی رفتار، زمین کے ریکارڈ کی شفافیت، جدید ڈیجیٹل نظام جیسے “پلس پراجیکٹ” اور “ای گِرداوری” کا نفاذ شامل ھـے۔ اب جوڈیشل ممبر کے لئے مقدمات کا فیصلہ کرنا بہت اسان ھو گیا ھے۔ اس کی کارکردگی کو باقاعدہ آن لائن ڈیش بورڈ کے ذریعے رپورٹ کیا جاتا ھـے اور اس بنیاد پر اس کا شمار سبز، زرد یا سرخ زمرے میں کیا جاتا ھـے۔ سبز زمرہ بہترین کارکردگی کی علامت ھـے، زرد درمیانی درجے کا اور سرخ ناقص کارکردگی کا۔ اس تبدیلی نے اس عہدے کو نئی توانائی اور شفافیت عطا کی ھـے۔
ایک اور اہم قدم احتساب کے دو خصوصی سیلوں کا قیام ھـے جو ریونیو کورٹس کی نگرانی کے لئے تشکیل دیے گئے ہیں۔ یہ کمیٹیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ عدالتوں میں فیصلے قانون اور ضابطے کے مطابق ھوں۔ کسی بھی افسر کی جانب سے جانبداری یا کرپشن کی شکایت آنے پر فوری کارروائی کی جاتی ھـے۔ ساتھ ھی ایک اندرونی آڈٹ وِنگ بھی بنایا گیا ھـے جو مالی شفافیت کو یقینی بناتا ھـے۔ اس وِنگ کا کام اسٹامپ ڈیوٹی، زرعی آمدنی ٹیکس اور دیگر فیسوں کے حساب کتاب کا آڈٹ کرنا ھـے تاکہ حکومتی خزانے کو نقصان نہ پہنچے۔ یہ سب اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جوڈیشل ممبر اب محض ایک کاغذی افسر نہیں بلکہ ایک فعال اور جوابدہ منصب پر فائز شخصیت ھـے۔
عام کسان کے لئے ان اقدامات کے کیا اثرات ہیں؟ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھـے کہ اب زمین کے کاغذات میں رد و بدل، انتقالات میں تاخیر اور فردِ ملکیت کے مسائل کے حل کے لئے برسوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جوڈیشل ممبر کی نگرانی میں اپیلوں کو مقررہ وقت میں نمٹایا جاتا ھـے۔ آن لائن ریکارڈنگ کی وجہ سے پٹواری یا دیگر اہلکار کاغذ غائب نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی اہلکار غلط بیانی کرے تو اس کے خلاف براہِ راست اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے کارروائی بھی ممکن ھـے۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ھـے کہ کسان کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا اس کا کھیت ھوتا ھـے۔ جب اسے یقین ھو جائے کہ اس کی زمین کا ریکارڈ محفوظ ھـے اور کسی کی طاقت یا رشوت سے اس کی ملکیت چھینی نہیں جا سکتی تو اس کا اعتماد بڑھتا ھـے۔ ایسے
ھی ایک کسان کا واقعہ مشہور ھوا جس کی زمین ایک بااثر شخص نے اپنے نام منتقل کروانے کی کوشش کی۔ پٹواری نے دباؤ میں آ کر ریکارڈ میں تبدیلی کی لیکن جب معاملہ اپیل کی صورت میں جوڈیشل ممبر کے سامنے آیا تو اس نے ریکارڈ کو درست کیا اور کسان کو انصاف دلایا۔ اس فیصلے نے نہ صرف اس کسان بلکہ پورے گاؤں کے لوگوں کا اعتماد بحال کیا۔
یہ درست ھـے کہ ابھی اس نظام میں بہت سی خامیاں باقی ہیں۔ بعض علاقوں میں اب بھی پٹواری کلچر کی جڑیں مضبوط ہیں اور اثرورسوخ رکھنے والے لوگ زمین کے مقدمات کو اپنی مرضی سے موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ھـے کہ جوڈیشل ممبر کی کارکردگی کے لئے جو نئے پیمانے متعارف کروائے گئے ہیں، وہ اس نظام کو آہستہ آہستہ شفاف بنا رھے ہیں۔ اب اگر کوئی ممبر مقدمات میں غیر معمولی تاخیر کرے گا تو اس کی کارکردگی سرخ زمرے میں ظاہر ہوگی اور اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ تبدیلی ماضی کے مقابلے میں ایک بڑا قدم ھـے۔
بورڈ آف ریونیو کے جوڈیشل ممبر کو اگر درست معنوں میں “زمین اور قانون کا نگران” کہا جائے تو غلط نہ ھوگا۔ یہ وہ مقام ھـے جہاں کسان کی محنت، زمین کی حقیقت اور قانون کی طاقت یکجا ھوتے ہیں۔ اس کی کارکردگی براہِ راست عوامی اعتماد سے جڑی ہوئی ھـے۔ آج اگر کسان کو بروقت انصاف مل رہا ھـے، زمین کے ریکارڈ میں شفافیت آ رھی ھـے اور مقدمات جلد نمٹائے جا رہے ہیں تو اس کا کریڈٹ اسی ادارے اور خاص طور پر جوڈیشل ممبر کے کردار کو جاتا ھـے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں زمین سے جڑے مسائل عام ہیں، وہاں اس عہدے کی اہمیت دوچند ھو جاتی ھـے۔ یہ عہدہ محض ایک سرکاری سیٹ نہیں بلکہ انصاف، شفافیت اور عوامی اعتماد کی بنیاد ھـے۔ اگر یہ ادارہ اپنی موجودہ سمت میں کام کرتا رھا تو آنے والے برسوں میں زمین کے جھگڑوں سے جڑی کرپشن اور ناانصافی کافی حد تک ختم ھو سکتی ھـے۔ عوام کو یہ یقین ھو گا کہ ان کے مسائل کا حل کسی سفارش یا رشوت سے نہیں بلکہ قانون کی طاقت سے ھوگا۔ یہی اصل کامیابی ھـے اور یہی وہ مقصد ھـے ،۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.