گذشتہ دن مجھے بہاولپور سے لودھراں جانے کا اتفاق ہوا جس کے لیے شدید سیلاب زدہ ستلج کے دریا کو عبور کرنا پڑتا ہے ۔دریا کے پل پر پہنچا تو بڑی حیرت ہوئی کہ وہاں تو ایک میلے کا سماں تھا۔لوگ اپنے اپنے موٹر سایکل اور کاروں پر دور دور سے وہاں پہنچ رہے تھے ۔ہر جانب دور دور تک لوگوں کا ہجوم دکھائی دیتا تھا ۔بےشمار کھانے پینے کی اشیاء کے کھوکھے اور پھیری والوں کے ساتھ ساتھ زندہ اور تلی ہوئی مچھلی کی دوکانوں پر بڑا رش تھا ۔عجیب سماں تھا ایک جانب پانی کا سیلاب اور شدت کی وجہ سے پانی کا شور تو دوسری جانب سیر اور تفریح کرتا ہوا لوگوں کا یہ بےہنگم ہجوم جو وہاں کرسی میزوں پر براجمان تازہ مچھلی اور چاۓ پانی سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔بظاہر ایسا لگتا تھا یہ سب کسی پکنک ،میلے یا وساکھی پر خوشی کے اظہار کے لیے اکھٹے ہو رہے ہیں ۔دریا کے پل پر کھڑے لوگوں کو پانی کی تصاویر بناتے دیکھ کر ذرا بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ قوم سیلاب اور بارشوں کی آفت سے نبردآزما ہے ۔پورے دریا کے پل کو دیکھنے اور تصاویر لینے کے لیے بچے ،بوڑھے ،مرد و خواتین پل کی دیوار اور ریلنگ پکڑے جھانکتے ہوے دیکھے جا سکتےتھے ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اسے اپنی قوم کی زندہ دلی کہوں یا پھر غیر دانشمندانہ رویہ کہوں کہ جب سیلابی خطرات کے باعث حکومت اور انتظامیہ بار بار دریاوں پر جانے اور تصاویر لینے سے روک رہی ہےتو یہ یہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ ٹک ٹاکر آخر باز کیوں نہیں آرہے ؟میں نے ایک شخص سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا جناب ! قسمت سے تو دریا میں پانی نظر آیا ہے اب اسے دیکھنے بھی نہ آئیں اس کا استقبال بھی نہ کریں اس کی خوشی بھی نہ منائیں ؟ ایسے ہی ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک دوست کی جانب سے دی جانے والی مچھلی کی دعوت پر آیا ہوا ہے ۔چھوٹے چھوٹے بچوں کا اپنے والدین کے ہمراہ آئس کریم شاپ پر رش دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ شاید ہر سال اور بار بار سیلاب آنے سےیہ آفت بھی اب ایک معمول بن گئی ہے اور لوگوں کی حساسیت کم ہو کر رہ گئی ہے ۔ستلج کنارے “میلے کا یہ سماں اور منظر بظاہر تو مجھے یہ سب اپنی قومی زندہ دلی ہی محسوس ہوئی لیکن حقیقت میں یہ غیر سنجیدگی اور غیر دانشمندی کی علامت ہوتی ہے ۔ہمارے دیہی علاقوں میں “ہجوم ” اکٹھا ہو نا ایک فطری سی عادت ہے ۔چاہے عرس ہو ،حادثہ ہو ،سیلاب ہو یا پھر جنگ کے دوران کوئی میزائیل ہی کیوں نہ گرے ۔لوگ اپنا دکھ اور خوف بھول کر جوق در جوق اس جانب دوڑتے ہیں اور یہ اجتماعی رویہ میلوں جیسا تاثر دیتا ہے اور ہمارا میڈیا عموما” ایسے مناظر کو سنسنی خیز اور دلکش انداز میں ایسے دکھاتا ہے کہ المیہ بھی تفریح بن جاتا ہے ۔جو اس جانب اشارہ بھی ہے کہ ہماری قوم اجتماعی طور پر آفات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ۔صرف دریا ستلج کا ہی یہ حال نہیں ہے دریا چناب اور دیگر دریاوں کے پلوں پر بھی یہی صورتحا ل دکھائی دیتی ہے ۔شاید آنے والے خطرات سے بےخبر ہم یہ نہیں سوچتے کہ ان مناظر کے پیچھے کتنے دردناک دکھ پوشیدہ ہیں اور کتنی انسانی جانیں اور ہمار امستقبل تباہ ہو رہا ہے ۔دریا کے پانی کو انجواے کرتا ہوایہ ہجوم شاید نہیں جانتا کہ غیر معمولی بارشوں کے بعد صوبہ پنجاب میں سیلابی صورتحال خطرناک حد تک خراب ہوتی جارہی ہے ۔لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں ۔جبکہ مزید بارشوں کی پیشن گوئی کی جارہی ہے ۔کئی شہر اربن فلڈنگ کا شکار ہو چکے ہیں ۔لوگوں کے اربوں روپے مالیت کے اثاثے ڈوب چکے ہیں ۔
عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں المیہ بھی تفریح بن جاتا ہے ۔جنگ ہو یا حادثہ ۔۔زلزلہ ہو یا سیلاب ۔۔لوگ اسے تماشا بنا کر دیکھتے ہیں اور ویڈیو بنانے لگتے ہیں ۔پچھلے دنوں جب بھارت نے میزائیل اور ڈرون فائر کئے تو لوگوں کا دلیرانہ رویہ اور قومی جذبہ تو کچھ سمجھ آتا تھا لیکن اسے بھی عقلمندی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ جان کی پرواہ کئے بغیر میزائیل گرنے والی جگہ پہنچے انہوں نے بندوقوں اور غلیلوں سے ڈرون گرانے کی کوشش کی اور اپنے سامنے میزائیل فائر ہوتے بھی دیکھے لیکن قدرتی آفات اور حادثات میں یہ بات تو قطعی سمجھ نہیں آتی کہ اس صورت میں ہم اپنی تماش بینی کو ردعمل کیوں بنا لیتے ہیں ۔ہم اسے زندہ دلی کہہ کر خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں حالانکہ اصل میں یہ بے فکری ،غیر سنجیدگی اور عدم دانش مندی ہے ۔زندہ دلی وہ ہوتی ہے جو مصیبت اور آفت میں حکمت اور حوصلے کے ساتھ عملی قدم اٹھاۓ نہ کہ مصیبت اور آفت کو تماشا بنا دۓ ۔سیلاب کو تماشا ،جنگ کو کھیل اور بحران کو میلوں میں بدل دینا شاید ہمارے اجتماعی شعور میں پیوست ہو چکا ہے ۔موجود ہ سیلاب کی بے پناہ تباکاریوں کے باوجود دریاوں پر ایسے ہجوم ہماری وسو چ پر سوالیہ نشان ہیں ؟ کہ جب قوم ڈوب رہی ہے ،ہمارے ادارے لوگوں کو ریسکیو کر رہے ہیں ہر جانب تباہی ہی تباہی کا سامنا ہے تو ہم دریا کنارے یہ میلے کیوں سجا رہے ہیں؟عجیب بات یہ ہے کہ ہم بار بار آفات میں پھنس کر بھی سبق سیکھنے کی بجاے ہر مرتبہ پھر غیر سنجیدہ رویہ اپنا لیتے ہیں ۔جیسے جنگ میں ڈرون یا میزائیل کو کھیل سمجھ لینا اور سیلاب میں ڈوبتے کناروں کو “میلہ ” بنا دینا شاید یہ خود کو تسلی دینے کا ایک نفسیاتی دفاعی میکانزم ہو سکتا ہے۔لیکن “آنکھ بند کر لینے سے شکاری ٹل نہیں جاتے ” ہماری بےفکری مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اس شدید سیلاب میں بھی یہ میلے ہماری دلیری ،بےخوفی کی عادت ہیں یا بےحسی کا مظہر ہیں یا تماشا بینی کا شوق یا پھراپنی ناامیدی اور بےبسی میں دکھ بھلانے کی کوشش ہیں ؟ایک جانب لوگوں کو اپنی جان ومال اور گھروں کو بچانے کی پڑی ہے تو دوسری جانب یہ میلے جاری ہیں اور کے پانی سیلاب کا دیدار کرنا گویا علاقے کا نیا شوق بن گیا ہے ۔
اصل دکھ بھرا سوال یہ ہے کہ جس سیلاب کو سنجیدگی ،تدبر اور اجتماعی منصوبہ بندی سے نمٹنے کی ضروت ہے وہ ہمارے لیے وقتی تماشا یا تفریح بن کر کیوں رہ گیا ہے ؟ اس رویے سے ہماری عوامی بے حسی اور حکومتی انتظامی کمزوری جھلکتی ہے ۔کہ لوگ سیلاب زدگان کی مدد کی بجاےخوشیوں کے میلے سجاےبیٹھے ہیں ۔ایک جانب ہمارا دشمن ریلے پر ریلہ چھوڑ کر آبی جارحیت کر رہا ہے تو دوسری جانب ہم دریا کنارے بےفکری اور غیر سنجیدگی سے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں سجاےپانی کی رفتار اور اس میں بہتے ہوے مردہ پالتو جانور دیکھ کر تصویریں اور ٹک ٹاک بنا رہے ہیں ۔یہ وقت لوگوں کی جانیں بچانے اور بےآسرا سیلازدگان کی مدد کا ہے جو بےیارومددگار کھلے آسمان تلے اپنا سب کچھ گنوا کر امدادی کیمپوں میں ہمارے منتظر ہیں ۔یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی قومی سوچ کے بدلنے کا وقت ہے ۔ہماری قوم کا بڑا حصہ سیلاب کی آفت اور مشکل سے بنرد آزما ہے اور جو لوگ اللہ کے فضل وکرم سے اس آفت سے محفوظ ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے اس کٹھن گھڑی میں آگے بڑھیں اور ان کے دکھوں میں شامل ہوکر جس طرح بھی اور جو بھی مددممکن ہو سکے ضرور کریں ۔خدارا ! دریاوں اور سیلابی پانی سے دور رہیں ،غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں ۔ذرا سوچیں ! خدانخواستہ چلاس اور سوات کی طرح اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوجاےتو پھر اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟