پانی کا گیت یا تباہی کی داستان

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

9

پانی زندگی کا وہ گیت ہے جو فطرت نے زمین کے لیے لکھا، دریاؤں کے بہاؤ میں جوش بھرتا ہے، کھیتوں میں سبزہ اگاتا ہے اور بستیوں کو سکون بخشتا ہے۔ لیکن جب ہم نے اس گیت کو اپنے لالچ اور بے حسی کے شور میں دبایا تو یہ نغمہ ماتمی بین میں بدل گیا۔ درخت کاٹ کر پہاڑ گنجے کر دیے گئے، قدرتی آبی راستوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں بسا دی گئیں اور دریاؤں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات کھڑی کر کے فطرت کو للکارا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانی جو زندگی دینا چاہتا تھا، موت کا پیغام لانے لگا۔

ہر سال جب بھارت اضافی پانی چھوڑتا ہے تو وہ فطرت کے پرانے راستوں سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتا ہے، کبھی سکون سے، کبھی طوفان بن کر۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت نے ہمیں کہا تھا کہ ڈیم نہ بناؤ؟ کیا بھارت نے کہا تھا کہ سیلاب سے بچنے کی منصوبہ بندی نہ کرو؟ کیا بھارت نے کہا تھا کہ امداد ہڑپ کر لو اور مستقبل کو اندھیروں میں دھکیل دو؟

اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اپنی بقا کے لیے سینکڑوں ڈیم تعمیر کیے اور نہری نظام کو بہتر بنایا جبکہ ہم نے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائیں اور سرمایہ دبئی و پرتگال میں لگا دیا۔ ہمارا میڈیا بھی اس موضوع پر وہ سوال نہیں اٹھاتا جو اٹھائے جانے چاہییں۔

پاکستان میں لگ بھگ 150 ڈیمز ہیں جن میں صرف 20 سے 25 بڑے ڈیم ہیں۔ ٹربیلا ڈیم دنیا کا سب سے بڑا ارتھ فلڈ ڈیم ہے لیکن مٹی کے بوجھ نے اس کی گنجائش 11.6 ملین ایکڑ فٹ سے گھٹا کر صرف 6 سے 7 ملین ایکڑ فٹ تک محدود کر دی ہے۔ منگلا ڈیم کو 2009 میں بڑھا کر 7.28 ملین ایکڑ فٹ تک لایا گیا، مگر یہ بھی ناکافی ہے۔ 2024 میں پاکستان کے بڑے ذخائر کی مجموعی لائیو اسٹوریج صرف 11.5 ملین ایکڑ فٹ رہی، جبکہ عالمی معیار کے مطابق کم از کم 120 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ ہمارے پاس محض 30 دن کا پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ بھارت کے پاس 220 دن کی۔

دیامر بھاشا ڈیم اور موہند ڈیم امید کی کرن ہیں۔ دیامر بھاشا مکمل ہونے کے بعد 8 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرے گا اور 4500 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا جبکہ موہند ڈیم 6 لاکھ ایکڑ فٹ پانی محفوظ کرے گا۔ لیکن ان منصوبوں کے باوجود ہم عالمی معیار سے پیچھے ہی رہیں گے جب تک سوچ نہیں بدلی جاتی۔

میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام کو حقیقت سے آگاہ کرے، مگر اکثر وہ شور مچاتا ہے اور سیاسی انتشار کو بڑھاتا ہے۔ اصل مکالمہ — پانی، ذخائر، منصوبہ بندی اور قومی بقا — کہیں گم ہو جاتا ہے۔

وقت کا دریا کسی کے لیے نہیں رکتا۔ اگر ہم نے ابھی سے ڈیمز تعمیر نہ کیے، پرانے ذخائر کو بحال نہ کیا، غیر قانونی تعمیرات ختم نہ کیں اور فطرت کے راستوں کو نہ کھولا، تو پانی ہر سال ہمیں اپنی بے آواز سرگوشیوں سے خبردار کرتا رہے گا اور ہم اپنی بے حسی سے انہیں شورِ قیامت میں بدلتے رہیں گے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم پانی کو زندگی کا گیت بنائیں یا تباہی کی داستان۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.