اقبال اکادمی ایک معروف ترین قومی ادارہ ہے،جو 29 مئی 1962ء کو ایک صدارتی حکم نامے کے بعد معرض وجود میں آیا تھا۔اس ادارے کا مقصد شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کی حیات اور علمی و ادبی و شعری کاوشوں کو تحقیق کے ذریعے لوگوں تک پہچانا ہے۔پچھلے 60 برسوں سے زائد عرصے میں اس عظیم ادارے نے اقبال کے افکار اور شاعری کو پوری دنیا میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس ادارے نے اقبالیات کے فروغ کے لئے اشاعت کتب،کانفرنسز،سیمینار اور بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔اس ادارے کی تشکیل کے ذریعے پوری دنیا شاعر مشرق کی شعری خدمات کو متعارف کرایا جاتا ہے۔جب یہ ادارہ معرض وجود میں آیا تو اس کے سرپرست اعلیٰ صدر مملکت بنے۔جب کہ ہر دور میں وزیر تعلیم اس کے صدر منتخب ہوئے۔اس کے علاؤہ ادارے کے چیئرمین،وائس چیئرمین،اعزازی ممبران ،تاحیات ممبران اور عام ممبران بھی بنائے گئے۔مسودوں کی جانچ پڑتال کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔بعد ازاں اقبال ایوارڈ کا اجراء کیا گیا۔اقبال اور اقبالیات کے حوالے سے کتب ،پمفلٹ،اردو و انگریزی مجلے اور خبر نامہ بھی شائع ہوتا رہا ہے۔اس ادارے کو کامیابی سے چلانے کے لئے حکومتی امداد ،فنڈز اور کتابوں سے حاصل ہونے والی رقم سے اشاعت کا سلسلہ جاری ہے ادارے نے اقبالیات کے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے،کلیات اقبال،، کے مختلف ایڈیشنز کے علاوہ،تحقیقی و تنقیدی کتب اور بچوں و نوجوانوں کے لئے معیاری کتب شائع کی ہیں۔
لاہور میں ایجرٹن روڈ پر واقع ایوان اقبال کی تین پرشکوہ عمارتیں ہیں ۔ہر عمارت سات منزلوں پر مشتمل ہے ۔جن میں سے ایک منزل میں اقبال اکادمی کا دفتر بنایا گیا ہے۔اقبال اکادمی وہ عظیم ادارہ ہے جسے بنانے والوں میں مرزا محمد منور ،شہرت بخآری ،ڈاکٹر معیز الدین، بی اے ڈار ،سہیل عمر ،احمد جاوید ،بصیرہ عنبرین اور کئی معروف شخصیات کی کاوشیں شامل ہیں۔تاہم ڈاکٹر وحید قریشی اور سہیل عمر کے دور میں خاصا کام ہوا۔ڈاکٹر وحید قریشی نے کتب کے سستے ایڈیشنز شائع کیں تو سہیل عمر نے علامہ محمد اقبال کے 125 ویں یوم ولادت کی مناسبت سے بہت سی نئی پرانی کتب شائع کیں۔جس میں میری دو کتب سراغ زندگی اور مقدر کا ستارہ اور میری مرتب کی گئیں یونس حسرت کی دو کتابیں بھی شامل تھیں۔بچوں کے اقبالیاتی ادب کے فروغ میں یہ کتب مددگار ثابت ہوئیں۔اب اس کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور موجودہ ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی کی دن رات کوششوں سے ان کے دور اقتدار میں 50 سے زائد کتب کی اشاعت نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ اقبالیات کے فروغ کے لئے بہت اچھا قدم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی کاوشوں سے اگلا برس نومبر 2026 تا نومبر 2027ء شاعر مشرق کے 150 ویں یوم ولادت کے طور پر منایا جا رہا ہے ،جس میں 150 نئی کتب کی اشاعت متوقع ہے۔حکومت پاکستان نے اس پروجیکٹ کی منظوری بھی دے دی ہے۔
اتنی بہت سی کاوشوں کے باوجود پچھلے دنوں اقبال اکادمی کو دوسرے ادارے میں ضم کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں،جو مناسب نہیں۔میریجناب وزیر اعظم پاکستان اور ادارے کے معاملات سے باخبر وزیر تعلیم جناب اورنگ زیب کھچی سے درخواست ہے کہ ادارے کی الگ حیثیت قائم رکھی جائے تاکہ شاعر مشرق کی شخصیت اور علمی و ادبی مقام و مرتبے پر شارحین ،محققین،ناقدین اور اقبال کہانی لکھنے والوں کی بھی ایک الگ شناخت قائم رہے۔اس کے علاؤہ حکومت وقت ادارے کے ملازمین کی برسوں سے معطل گریجویٹی اور پینشن کو بھی بحال کرے تاکہ ملازمین میں پائی جانے والی بے چینی دور ہو اور ریٹائرڈ ملازمین کی بھی ماہانہ مدد ہو سکے۔نئے اشاعتی منصوبوں کو تکمیل کے مراحل تک پہنچانے پر ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد ۔ویل ڈن