**سر نیزے کیوں چڑھدے ہو**

تحریر: امجد علی

20

عارفوں کے سلطان، سلطان العارفین، حضرت سلطان باہوؒ “دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں لاکھوں دلوں کو نورِ عشقِ الٰہی سے منور کیا۔ آپ کا دربار آج بھی فیضان محبت کا مرکز ہے۔
اُلفت اہل بیت میں ڈوبی آپ کی ابیات آج بھی قلوب کو گرماتی ہیں۔ ان کا فیض صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ جذب و جنون کے آتش فشاں میں ہے جو ہر برس آٹھویں محرم کو ان کے دربار پر بلاتعطل منعقد ہونے والی محفل حسین سے جھلک رہا ہے۔ یہی وہ محفل ہے جس میں ان کے عشقِ حسینیؑ کی صدائیں مسلسل بازگشت کر رہی ہیں۔ وہ عشق جس نے انہیں اتنے بلند افکار اور الفاظ ھدیہ کیے۔ آپ فرماتے ہیں۔

جے کر دین علم وچ ہوندا
سر نیزے کیوں چڑھدے ہو؟
اٹھارہ ہزار جو عالم آہا
اگے حسین دے مردے ہو؟
یہ اشعار صرف الفاظ نہیں، روح سے پھوٹتی دل خراش آہ ہیں۔ جب حضرت سلطان باہوؒ نے یہ بند قلم بند کیے، تو ان کے دل میں یقیناً حبِ رسول ﷺ اور عشقِ حسینؑ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا۔
کربلا کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسلامی سلطنت بظاہر اپنے عروج پر تھی۔ کثیر تعداد میں علماء و فقہاء موجود تھے، مساجد آباد تھیں، سلطنت اسلامیہ میں چہار سو خطبے جاری تھے، لیکن پھر بھی امام حسینؑ کو تنہا کر دیا گیا۔ اگر دین صرف علم کا نام ہوتا، تو سر نیزے پر نہ چڑھتے۔ امام حسینؑ کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ صرف زبانی علم کافی نہیں، جب تک دل میں ایمان، عمل، وفا، اور عشق نہ ہو، تب تک دین فقط ایک خالی ڈھانچہ رہ جاتا ہے۔
اسی لیے حضرت باہوؒ فرماتے ہیں:
جے سر دتیاں حق حاصل ہووے
باہو! اس موتوں کی ڈرنا ہو؟
باہو جے صاحب سر منگے
ہرگز ٹھل نہ کریے ہو
علم زبان کا کام ہے، عشق دل کا۔ علم روشنی دکھاتا ہے، عشق خود شعلہ بن جاتا ہے۔ علم دلیل مانگتا ہے، عشق قربانی۔ اگر علم کے باوجود دل خالی ہو، تو حسینؑ جیسے رہبر ظلم و بربریت کے ہاتھوں شہید کیے جاتے رہیں گے، اور امت خاموش تماشائی بنی رہے گی۔
یہ فرق ایسے ہی سمجھا جا سکتا ہے جیسے ایک نوجوان اپنے باپ کو لڑتے دیکھ کر فوراً لپک پڑے، بغیر تحقیق، بغیر دلیل، صرف محبت کے جذبے میں اگے بڑھے۔ اس نے اپنی کمزوری دشمن کی طاقت کو مد نظر نہ رکھا۔ لڑائی میں چوٹیں آئیں گی نہیں سوچا۔ اپنی عزت جائے یا سر
بس بجلی کی طرح کود پڑا کہ ۔۔۔۔باپ کو بچانا ہے۔
یہ ہے “حب”، جو عقل سے نہیں، دل سے پھوٹتی ہے۔ یہی جذبہ مؤمن کا اصل ہتھیار ہے۔ اسی کو قرآن مکرم نے بھی جا بجا بیان کیا ہے
اللہ تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران میں فرمایا:
“اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، تو اللہ تم سے محبت کرے گا۔”
(آل عمران: 31)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جب تک میں تمہیں تمہارے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔” تو ثابت ہوا درجہء ایمان محبت سے جڑا ہے جتنی محبت اتنا ایمان۔
تربیت مصطفے اتنی عالیشان تھی، صحابہ اکرام اسقدر عطائے حب رسول معظم سے شرشار تھے۔ ان کی نظر میں سوال ہوتا کہ اگر عشق ہے تو خاموشی کیسی! وہ آنکھ بند کر کے گواہی دیتے, بلکہ جان کا نظرانہ پیش کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے۔ صحابہ کا دین
گویا درجۂ ایمان، محبت سے مشروط تھا، جتنی محبت، اتنا ایمان۔

اسی عشقِ رسالت ﷺ کی بے مثال جھلک حضرت خزیمہؓ کی گواہی میں دکھائی دیتی ہے۔ ایک موقع پر ایک بدو کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا سودا طے پایا، لیکن بدو نے قیمت ادا کرنے میں تھوڑی تاخیر اور منڈی میں زیادہ ریٹ کی امید پر سودے سے انکار کر دیا اور کہا: “اگر سودا ہوا ہے تو گواہ لاؤ۔” رسول مکرم ﷺ پریشان ہوئے، کہ وہاں کوئی تھا ہی نہیں تو گواہ کہاں سے ائے۔
اتنے میں حضرت خزیمہؓ حاضر ہوئے سلام کے بعد احوال دریافت کیا تو بلا توقف کہا:
“میں خزیمہ گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد جان کائنات نے بدو سے اونٹ کا سودا کیا ہے!”

بدو ششدر رہ گیا۔۔ اور بلا تاخیر اونٹ حضور محسن کائنات کے حوالے کر دیا۔
حالانکہ حضرت خزیمہؓ وہاں موجود نہ تھے پھر بھی بے دھڑک گواہی دی جب جان مدینہ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا:یرے اقاء
“جس نبی نے آسمانوں کی خبریں دے کر سچائی ثابت کی، وہ دنیا کے سودے میں جھوٹ کیوں کر بولیں گے؟”

یہ تھا وہ عشق جو تحقیق کا محتاج نہیں، بلکہ معرفتِ مصطفی ﷺ پر یقین کا نتیجہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ حضرت خزیمہؓ کی اس ایمان افروز گواہی سے اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا:
“آج سے خزیمہ کی ایک گواہی دو کے برابر ہوگی!”
یہ صرف ایک امتیازی فیصلہ نہ تھا، بلکہ عشق کے لیے اصول بدلنے کا اعلان تھا۔ حضرت خزیمہؓ کی محبت و وفا کی خاطر اسلام کے قانون میں ان کے لیے خاص تبدیلی فرما دینا، اسی خاموش عشق کا اظہار ہے جو دلیل کے بغیر بولتا ہے، سوال کیے بغیر جان پیش کرتا ہے، اور جب گواہی دے تو حضور ﷺ کی صداقت ہی اس کی سند بن جائے۔
یہی محبت، دین کا جوہر ہے، ایمان کی بنیاد ہے، اور عشقِ رسول ﷺ اس کا اوجِ کمال۔ سلطان باہوؒ کے اس بند کے مصرے “سر نیزے کیوں چڑھدے ہو” کو اسی تناظر میں سمجھنا ہوگا۔ یہ سوال نہیں، بلکہ آلِ رسولؐ سے بے پناہ محبت سے اٹھنے والی وہ پر سوز ہوک ہے جو صدیوں سے وقت کے سینے کو چیرتی، آج بھی دلوں میں پیوست ہو رہی ہے۔

یاد کیجیے اُس سچے عاشقِ رسول ﷺ، غازی علم الدین شہید کو جس کے دل میں عشقِ مصطفی ﷺ اس قدر موجزن تھا کہ دنیا کی کوئی دلیل، کوئی وکیل، کوئی قانونی تدبیر اُس کے ارادے کو نہ بدل سکی۔
جب وکلا نے جان بچانے کی راہ دکھائی، تو اُس نے بے جھجک کہا:
“کیا میں جان بچانے کے لیے اتنی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.