بے بس عوام بنام سرکار

ڈیرے دار سہیل بشیر منج

2

گزشتہ روز سوات کے بعد پاکپتن میں انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں چند روز میں بائیس نومولود بچے انتقال کر گئے جو بلا شبہ ہر ذی شعور انسان کے لیے تڑپا دینے والا حادثہ تھا اب یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیا صرف پاکپتن میں ہی ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں یا پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی حالات ایسے ہی ہیں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا وہ اس واقعے کے قصوروار بھی تھے یا نہیں؟ ہمارے حکمرانوں کا بدقسمتی سے وہ حال ہے کہ کسی شہر میں کوئی امیر
آ دمی واک سے واپس آ رہا تھا اس کا پاؤں سولنگ سے نکلی ہوئی اینٹ میں پھنسا اور گر گیا ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی لوگ وہاں جمع ہوئے بجائے مدد کے یا ایمبولنس کو اطلاع دینے کے موبائل فون نکالے ویڈیو بنانے لگے کچھ دیر گزری اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا جب ہسپتال پہنچا تو پتہ چلا کہ ہڈیوں کا ڈاکٹر چھٹی پر ہے ایم ایس دو بجے چھٹی کر کے گھر چلا گیا ہے ہسپتال میں وہ بے بسی کے عالم میں پڑا درد سے کرولا رہا تھا چونکہ وہ ایک باثر آدمی تھا اس نے کسی اہم شخصیت کو فون کیا فورا ہی ہسپتال کی ساری مشینری حرکت میں آ گئی وزیر صحت موقع پر پہنچ گئے چھٹی پر گئے ایم ایس،ڈاکٹر اور ہسپتال کی انتظامی مشینری کو معطل کر دیا گیا اس کے علاج کے لیے دوسرے ہسپتالوں سے ڈاکٹروں کا انتظام کیا گیا لیکن ہمارے حکمرانوں کی طرح کسی کا دھیان بھی اس اینٹ پر نہیں گیا آ ج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ہم اس ایک اینٹ کو ٹھیک کرنے کی بجائے ڈاکٹرز اور انتظامیہ پر پرچے دے رہے ہیں انہیں گرفتار کروا رہے ہیں
جناب وزیراعلی آپ اور آپ کی انتظامیہ اس اینٹ تک نہیں پہنچ پائے تو میں آپ کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں
اس وقت پنجاب میں جتنے بھی ہسپتال ہیں وہ کسی بھی لیول کے ہیں جن میں بی ایچ یو، ٹی ایچ کیو ،ڈسٹرکٹ ہسپتال یا بڑے ہسپتال سب کے سب اوور کراؤڈڈ ہیں سروے کروا لیں ان تمام چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں سب سے زیادہ مصروف گائنی وارڈز ہیں جس شرح سے وطن عزیز سمیت پنجاب میں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہو رہا ہے اگر پہلے سے موجود ہسپتالوں کی تعداد کے برابر بھی نئے ہسپتال بنا دیے جائیں تب بھی کم ہیں دوسرا ہمارے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی تعداد ضرورت سے بہت کم ہے اور جتنی تعداد سے ہم ان ہسپتالوں کو چلا رہے ہیں اس کے نتائج ایسے ہی برآمد ہو سکتے ہیں جو پاکپتن میں ہوے آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں وہاں پر ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹرز اور دوسرے سٹاف کا رویہ اس قدر تکلیف دہ اور توہین آمیز ہوتا ہے جو پہلے سے تکلیف میں مبتلا مریض کی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے لیکن جیسے ہی آپ انہی ڈاکٹرز کے پرائیویٹ کلینک جاتے ہیں وہی زبان جو سرکاری ہسپتالوں میں انگارے برسا رہی ہوتی ہے اچانک پھول برسانا شروع ہو جاتی ہے
ان رویہ جات میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے ہر ہسپتال میں ڈاکٹرز کے ساتھ الجھنے کی سزاؤں کا ایک پورا چارٹ
آویزاں ہوتا ہے لیکن ایسا کوئی چاٹ موجود نہیں جس پر ڈاکٹر نرسوں اور دوسرے سٹاف کی نفرت اور توہین
آمیز رویے کے بارے میں تحریر ہو انتہائی افسوس سے بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ ہسپتال میں داخل مریض اور اس کے لواحقین کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جس کے وہ
ہر گز مستحق نہیں ہوتے
جناب وزیر اعلی اپنی خفیہ ٹیموں کو ایکٹو کریں اور بغیر بتائے انہیں سرکاری ہسپتالوں میں بھیجیں ایک ہفتے کےسروے کے بعد انتہائی خوفناک رپورٹ موصول ہوگی
انہی رویہ جات سے تنگ آ کر لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جہاں اس سے بھی خطرناک حالات ان کے منتظر ہوتے ہیں بڑے ہسپتال تو پھر بھی ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن چھوٹے ہسپتال جو اکثر لوگوں نے گھروں میں بنائے بنا رکھے ہیں وہ انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں وہاں پر عطائیوں کا راج ہے
پاکپتن میں بھی ایسا ہی ہوا فوت ہونے والے بائیس بچوں میں سے صرف دو بچے ٹی ایچ کیو میں پیدا ہوئے تھے ان میں سے پندره بچے وہ تھے جو چھوٹے ہسپتالوں سے طبیعت بگڑنے کے بعد وہاں لائے گئے اور پانچ بچے وہ تھے جن کی پیدائش گھروں میں نا تجربہ کار دائیوں کے ہاتھوں ہوئی
کمشنر ساہیوال کی اس رپورٹ کے بعد وزیراعلی کے اقدامات کہاں کھڑے ہیں جو انہوں نے آتے ہی ایم ایس، چیف ایگزیکٹو اور لیبارٹری ملازمین کو جیل بھیج دیا
جناب وزیر اعلی برائے کرم اب وہ اینٹ تلاش کرنے کی کوشش کریں جو ٹھوکر لگنے کا سبب بن رہی ہے آپ ان تمام ہسپتالوں میں گائنی کے لیے الگ سے یونٹ یا سرے سے ہی گائنی کے الگ ہسپتال بنائیں اور پھر ان کی سخت نگرانی کریں اگر حکومت پنجاب کے پاس نئے یونٹس بنانے کے لیے فنڈز نہیں ہیں تو پنجاب کے چالیس اضلاع میں نئے ہسپتال بنانے کے لیے مخیر حضرات کی وزیراعلی ہاؤس میں دعوت کریں ان کو ہسپتال بنانے کی تجویز دیں ان ہسپتالوں کا نام انہی کے نام سے منسوب کر دیں انہیں کسی سرکاری اعزاز سے نواز دیں ان کے لیے کوئی خطاب تجویز کر دیں جو ہمیشہ ان کے نام کے ساتھ لگا رہے انہیں سرکاری اداروں میں پروٹوکول دے دیں میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسے ایسے اللہ کے بندے موجود ہیں جو ذاتی حیثیت میں ایک ایک ہسپتال بنانے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں
دوسرے نمبر پر آپ کے تمام ہسپتال ادویات سے خالی پڑے ہیں آپ کا مریضوں کو گھر تک ادویات پہنچانے کا عمل بلا شبہ قابل تحسین ہے لیکن ہسپتالوں میں ادویات کی دستیابی یقینی بنائیں آپ کی انتظامیہ آپ کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں جہاں آپ نے وزٹ کرنا ہوتا ہے وہاں پر ادویات ارینج کر کے پہنچا دی جاتی ہیں اور وزٹ مکمل ہونے کے بعد ادویات پھر سے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.