چینی کا 80 سے 80ا تک کا تیز ترین سفر

تحریر ، محمد ندیم بھٹی

7

کبھی یہی چینی عام دکانوں پر 70 اور 80 روپے فی کلو ملتی تھی۔ لوگ اسے خرید کر اپنی چائے، کھانے، میٹھے پکوان، مٹھائیاں اور شیر خوار بچوں کے لئے دلیے میں استعمال کرتے تھے۔ یہ زندگی کا لازمی جزو تھی مگر کبھی یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ چینی، جو کبھی عام آدمی کی دسترس میں ہوتی تھی، ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اس کی قیمت 180 روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ چینی کا یہ تیز رفتار اور بے رحم سفر محض ایک مصنوعی قلت، ذخیرہ اندوزی اور حکومتی بدانتظامی کی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی غمازی کرتا ھے جس میں عوام کی فلاح سے زیادہ مفاد پرستی اور کرپشن کو اہمیت حاصل ھے۔
چینی کا بحران پاکستان میں کوئی نیا واقعہ نہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے اس ملک میں وقتاً فوقتاً چینی کے بحران نے سراٹھایا ھے، اور ہر بار اس کی ذمہ داری کسی نہ کسی حکومت یا نجی شوگر مافیا پر ڈال دی جاتی ھے۔ مگر اس بار جو کچھ ھوا وہ پہلے سے بھی زیادہ تیز، بھیانک اور تکلیف دہ ھے ۔ صرف چند مہینوں میں چینی کی قیمت دوگنا سے زیادہ بڑھ گئی۔ یہ اضافہ محض مہنگائی یا بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ھے جس کے تحت چینی کو نایاب اور پھر قیمتی بنا کر مخصوص طبقات کو فائدہ پہنچایا گیا ھے۔یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں چینی کا کاروبار چند ہاتھوں میں ھے۔ یہی چند خاندان، جو سیاست، صنعت، تجارت اور زراعت میں بیک وقت اثرورسوخ رکھتے ھیں، ملک کے شوگر ملز کنٹرول کرتے ھیں۔ یہ وہی لوگ ھیں جو پارلیمنٹ میں بھی موجود ھیں، حکومتی ایوانوں میں بھی بیٹھے ھیں اور معاشی پالیسیاں بھی ترتیب دیتے ھیں۔ جب طاقت، تجارت اور قانون سازی ایک ہ
ھی چھتری تلے آجائے تو پھر چینی ھو یا آٹا، ہر شے ایک سازش کی شکل اختیار کر لیتی ھے۔ عوام محض ایک ھجوم بن کر رہ جاتے ھیں جنہیں مہنگائی کی چکی میں پیسا جاتا ھے اور ان کے احتجاج کو نظر انداز کر دیا جاتا ھے۔
ملک میں جب چینی کی قلت پیدا ہوئی، تو حکومتی وزراء اور ادارے محض بیانات تک محدود رھے۔ کسی کے خلاف بروقت کارروائی نہیں کی گئی۔ ذخیرہ اندوزوں نے گودام بھر لئے، مل مالکان نے پیداوار روکی، اور ھول سیل مارکیٹ سے چینی غائب ہونے لگی۔ ریٹیل میں چینی دستیاب تھی تو صرف مخصوص دکانداروں کے پاس، اور وہ بھی تین گنا قیمت پر۔ ایک طرف حکومت چینی کو 90 روپے کلو پر فراہم کرنے کے دعوے کر رھی تھی، اور دوسری طرف بازار میں یہی چینی 150 سے 180 روپے فی کلو پر بک رھی تھی۔ ایسے میں غریب آدمی کیا کرتا؟ وہ جس کی آمدن ویسے ھی بجلی، گیس، پیٹرول اور آٹے کی قیمتوں کی بھینٹ چڑھ چکی تھی، وہ آخر کتنی مہنگی چینی خریدتا؟
اس صورتحال کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ھے کہ حکومت کے اپنے ادارے، جیسے یوٹیلیٹی سٹورز، بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رھے۔ ان سٹورز پر چینی کی فراہمی محدود رھی، قطاریں طویل رہیں، اور کئی علاقوں میں تو چینی دستیاب ھی نہ ھو سکی۔ ایسی صورت میں ذخیرہ اندوزی کو کیسے روکا جاتا ؟ جب ریاستی مشینری مفلوج ھو جائے، اور قانون صرف کمزور کے لئے ھو، تو سماج میں طاقتور ھی راج کرتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ چینی مافیا نے کھلے عام ناجائز منافع خوری کی، اور کسی کو پکڑنے والا کوئی نہ تھا۔
چینی کی قیمتوں میں اس طوفانی اضافے نے متوسط طبقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ھے۔ جو لوگ پہلے اپنی آمدن میں کسی نہ کسی طرح گزارہ کر رہے تھے، وہ اب ماہانہ بجٹ بناتے وقت چینی کو غیر ضروری اشیاء کی فہرست میں شامل کرنے لگے ھیں۔ گھروں میں چائے کم ھو گئی ھے، مٹھائی نایاب ھو گئی ھے، بچوں کے لئے میٹھا دلیہ ایک خواب بن گیا ھے۔ ایک ایسی چیز جو کبھی عام اور روزمرہ استعمال میں آتی تھی، اب امیروں کی دسترس میں رہ گئی ھے۔ یہ کیسا معاشرہ بن چکا ھے جہاں چینی جیسے بنیادی جزو کو بھی لوگ ترسنے لگیں؟
ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی قیمتوں میں تفاوت بھی ایک سوالیہ نشان ھے۔ کراچی میں قیمت کچھ اور ھے، لاہور میں کچھ اور، اسلام آباد میں مختلف، اور دیہی علاقوں میں صورتحال اور بھی ابتر ھے۔ اس سے صاف ظاہر ھوتا ھے کہ کوئی مربوط پالیسی موجود نہیں اور نہ ہی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ اپنایا گیا ھے۔ اگر نیت صاف ھوتی، اگر ادارے مضبوط ھوتے، اگر قانون حرکت میں آتا تو یہ بحران پیدا ہی نہ ھوتا۔ مگر یہاں تو ہر بحران کے پیچھے ایک نیا کمیشن، ایک نیا سکینڈل، اور ایک نیا سیاسی مفاد جڑا ھوتا ھے۔
یہ بات بھی باعث حیرت ھے کہ چینی کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان خود کفیل ملک ھے۔ ہر سال لاکھوں ٹن چینی پیدا کی جاتی ھے، جس میں سے بعض اوقات برآمد بھی کی جاتی ھے۔ پھر ایسا کیا ھو گیا کہ چینی کی قلت پیدا ھو گئی؟
میرے قریبی ساتھی اور
اکنامکس کے ماہر دوستوں کے مطابق برآمدات کی اجازت ایسے وقت پر دی گئی جب ملک میں پہلے ھی ذخائر کم تھے۔ اس سے واضح ھوتا ھے کہ کچھ افراد کو فائدہ پہنچانے کے لئے چینی کی برآمدات کی گئیں اور بعد میں یہی قلت بحران میں تبدیل ھو گئی۔ ایسے فیصلے کسی سادہ غلطی کے نتیجہ نہیں ھو سکتے، بلکہ ان کے پیچھے ضرور کوئی منصوبہ بندی، کوئی مالی مفاد اور کوئی سیاسی دباؤ ھوتا ھے۔
پاکستان میں چینی کا مسئلہ صرف قیمتوں تک محدود نہیں، بلکہ اس کا تعلق زراعت، صنعتی پالیسی، کرپشن اور عدالتی نظام سے بھی جڑا ھوا ھے۔ کسانوں کو گنے کی قیمت وقت پر نہیں دی جاتی، ملز وقت پر نہیں چلائی جاتیں، اور جب کسان مجبوراً گنا کسی قیمت پر فروخت کر دیتا ھے تو وھی گنا بعد میں مہنگی چینی میں تبدیل ہو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.