وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف اپنا دو روزہ دورہ آذربائیجان مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے۔
وزیرِ اعظم نے اپنے دورے کے دوران خانکندی میں منعقدہ اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور عالمی و علاقائی امور پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا. وزیرِ اعظم نے علاقائی روابط، تجارت، سرمایہ کاری، پائیدار ترقی اور علاقائی امن کیلئے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا. وزیرِ اعظم کی موجودگی میں پاکستان اور آذربائیجان کے مابین 2 ارب ڈالر کی پاکستان کے اقتصادی شعبے میں آذری سرمایہ کاری کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے
وزیرِ اعظم کی اس موقع پر ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پیزشکیان، آذربائیجان کے صدر الہام علییف، ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان اور ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوئیف سے ملاقاتیں ہوئیں. ملاقاتوں میں علاقائی امن، پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ باہمی روابط اور تجارتی تعلقات کے فروغ پر گفتگو ہوئی
برادر اسلامی ملک آذربائیجان ہمیشہ سے پاکستان کا ہمدرد اور مخلص دوست رہا ہے۔ اب یہ بھائی چارہ اور دوستی اعتماد اور اقتصادی تعاون کے نئے میدان میں قدم رکھ چکی ہے۔ یہ فخر کا لمحہ ہے، آذر بائیجان نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کر کے دوستی کے ایک نئے دور کا اعلان کیا ہے۔ آذر بائیجان کے لوگ پاکستان کے لئے اس قدر جذباتی ہیں جیسے خود پاکستانی۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے جب بھارت کے عزائم کو خاک میں ملایا اور فتح کے جھنڈے گاڑے تو اس کی جتنی خوشی پاکستانیوں کو ہوئی اتنا ہی آذر بائیجان کے عوام فرحاں و شاداں ہوئے۔ حال ہی میں جب آذر بائیجان نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تو یہ خبر دونوں ممالک کے عوام کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ عالمی سیاست اور معیشت کے بدلتے کینوس پر جہاں تعلقات اکثر مفادات کی بنیاد پر بنتے اور بگڑتے ہیں، وہاں ایک برادر اسلامی ملک کا پاکستان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنے کا عزم اور سرمایہ کاری کا فیصلہ نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ دوستی اور بھائی چارے کی نئی مثال بھی قائم کرتا ہے۔
آذربائیجان اور پاکستان کے تعلقات محض رسمی نہیں، بلکہ ان کی بنیاد محبت، تعاون اور مشترکہ اسلامی ورثے پر قائم ہے۔ جب کبھی بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا، آذربائیجان نے دوستی کا حق ادا کیا۔ کشمیر کے مسئلے پر آذربائیجان نے ہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور اسی طرح پاکستان نے بھی آذربائیجان کے حق میں ناگورنو کاراباخ کے مسئلے پر مضبوط آواز بلند کی۔ یہ وہ تعلق ہے جو الفاظ سے زیادہ عمل میں نظر آتا ہے۔وقت نے ثابت کیا جب بھی دونوں ملکوں میں سے کسی ایک پر کڑا وقت آیا دوسرا اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
آذربائیجان کی سرمایہ کاری پاکستان کے لیے نہ صرف اقتصادی استحکام کا باعث بن سکتی ہے بلکہ روزگار، جدید ٹیکنالوجی اور عالمی منڈیوں تک رسائی کا دروازہ بھی کھول سکتی ہے۔ پاکستان میں توانائی، زراعت، ٹیکنالوجی، تعمیرات، اور انفراسٹرکچر کے شعبے ایسے ہیں جہاں آذربائیجان سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی کی رفتار تیز کر سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی بڑی افرادی قوت موجود ہے جبکہ آذربائیجان کے پاس سرمایہ، جدید ٹیکنالوجی، اور کاروباری تجربہ ہے۔ اگر دونوں ممالک توانائی کے شعبے میں تعاون کریں تو پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ آذربائیجان کے توانائی ذخائر، خاص طور پر گیس اور تیل کے شعبے میں مہارت، پاکستان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح زراعت اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبے میں شراکت داری پاکستان کے دیہی علاقوں میں ترقی کا باعث بن سکتی ہے۔
دفاعی شعبے میں بھی پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات گہرے ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی دفاعی صنعت دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی ہے اور یہ آذربائیجان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ دفاعی مشقیں کر کے اپنی افواج کو مزید تربیت یافتہ اور منظم بنا سکتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی، سرحدی سیکیورٹی، اور جدید اسلحہ سازی میں تعاون نہ صرف دونوں ممالک کی سیکیورٹی کو مضبوط کرے گا بلکہ ایک دوسرے پر اعتماد کو بھی بڑھائے گا۔
حقیقی دوستی کی بنیاد محض معیشت یا دفاع پر نہیں، بلکہ عوامی سطح پر تعلقات سے بنتی ہے۔ آذربائیجان اور پاکستان کو تعلیمی اداروں کے درمیان تبادلوں، ثقافتی وفود، اور میڈیا تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ اگر پاکستانی طلبہ آذربائیجان میں اسکالرشپس پر جا کر تعلیم حاصل کریں اور آذربائیجان کے نوجوان پاکستانی یونیورسٹیوں میں آئیں تو دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشترکہ ثقافتی پروگرام،موسیقی، ادب اور کھیلوں کے مقابلے اس دوستی کو عوامی سطح تک لے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ سیاحت کے میدان میں آذر بائیجان سے کچھ سیکھے اور آذر بائیجان نے جن بنیادوں پر اپنی ٹورازم کی انڈسٹری کو کامیابی کی سطح تک پہنچایا ان پر عمل کر کے پاکستان میں سیاحت کو جدید پیمانوں پر فروغ دے۔
آذربائیجان کو پاکستان سے نہ صرف ایک بڑی تجارتی منڈی مل سکتی ہے بلکہ ایک قابل بھروسہ اتحادی بھی۔ پاکستان کی دفاعی صنعت، ٹیکسٹائل، زراعت، اور خدمات کے شعبے آذربائیجان کی معیشت میں تنوع پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کو آذربائیجان سے جدید ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری، اور یورپ و ایشیا کی منڈیوں تک رسائی مل سکتی ہے۔ دونوں ممالک مل کر ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی معیشتوں کو سہارا دے سکتے ہیں۔اس ضمن میں تعلقات کی پائیداری کے لیے تکلف برطرف کرنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ یہ تعلقات مضبوط اور دیرپا کیسے بن سکتے ہیں؟ اس کا سادہ جواب ہے، تکلف برطرف۔ ہمیں رسمی بیانات، کاغذی معاہدوں اور محض تصویروں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ حقیقی شراکت داری تبھی ممکن ہے جب دونوں ممالک کی قیادت اور عوام کھلے دل اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ پالیسیوں میں شفافیت، عمل میں سنجیدگی، اور فیصلوں میں تسلسل ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا، موقع پر بروقت مدد فراہم