کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف ادارے کا حصہ نہیں بنتے، ادارے ان کا عکس بن جاتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر صادق علی گل بھی انہی میں سے ایک تھے۔ تاریخ کے استاد، علم کے مسافر، تحقیق کے داعی اور انسان دوستی کے علمبردار۔
مرکز برائے جنوبی ایشیائی مطالعات، پنجاب یونیورسٹی ان کے وجود سے ایک ایسی روشنی پاتا رہا جو نہ صرف تعلیمی معیار بلند کرتی رہی بلکہ ایک ایسا خاندانی ماحول بھی فراہم کرتی رہی جس میں طالبعلم صرف طالبعلم نہیں رہتے تھے، وہ خاندان کا حصہ بن جاتے تھے۔ ان کی موجودگی میں مرکز ایک گھر کی طرح تھا جہاں استاد باپ کی طرح، ساتھی بہن بھائیوں کی طرح اور عملہ ایک قریبی رشتہ دار کی مانند محسوس ہوتا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب تعلیم صرف ڈگریوں کی دوڑ نہیں تھی بلکہ تربیت، تعلق اور توجہ کا دوسرا نام تھی۔ ڈاکٹر گل نے مرکز کو محض ایک ریسرچ سنٹر نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے ایک ایسی تربیت گاہ میں ڈھالا جہاں علم کے ساتھ ساتھ انسان سازی کا عمل جاری رہا۔ اُن کا دروازہ صرف دفاتر تک محدود نہیں تھا بلکہ ہر اُس دل تک کھلتا تھا جو راستہ بھٹک رہا ہوتا، یا رہنمائی کا محتاج ہوتا۔
یقیناً، انہیں اپنے سفر کے دوران سازشوں، ادارہ جاتی مخالفت اور بعض چبھتے رویوں کا سامنا بھی رہا، مگر وہ کبھی رکے نہیں۔ خاموشی سے، وقار سے، وہ اپنی راہ پر چلتے رہے۔ ان کی ذات طلباء کے لیے شفقت، اساتذہ کے لیے رہنمائی، اور ادارے کے لیے وقار کا سبب تھی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنی شریکِ حیات، جو خود بھی ایک باوقار علمی شخصیت اور سیاسیات کی استاد رہی ہیں، اور اپنے بچوں کے ساتھ کینیڈا منتقل ہو گئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد مرکز وہ مرکز نہ رہا۔ وہ خاندانی فضا، وہ انسان دوستی، وہ شائستگی جیسے رخصت ہو گئی ہو۔ ان کی غیر موجودگی میں ادارہ ایک عمارت تو رہا، مگر “گھر” نہ رہا۔
ان کا انتقال صرف ایک استاد کا جانا نہیں، ایک عہد کا اختتام ہے۔ ایسے لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔ ان کی وفات نہ صرف ان کے خاندان کے لیے ایک عظیم نقصان ہے بلکہ ان تمام طلباء، ساتھیوں اور ادارے کے لیے بھی ہے جنہوں نے ان کے سائے میں پروان چڑھنا سیکھا۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا کرے۔
ایسے لوگ جسم سے جدا ہو کر بھی دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
ڈاکٹر گل، آپ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ