13 جون 2025 وہ دن تھا جب مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، طاقت اور خوف کا چہرہ بدل گیا۔ یہ جنگ صرف میزائلوں اور ڈرونز کی نہیں تھی، یہ اعصاب کی جنگ تھی، حکمت اور بیانیے کی جنگ، اور سب سے بڑھ کر یہ فیصلہ تھا کہ اصل طاقت کس کے پاس ہے — جارحیت یا ضبط؟
اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ ایک بڑی اور فوری کارروائی کے ذریعے ایران کو جھکنے پر مجبور کر دے گا۔ اس نے “آپریشن رائزنگ لائن” کے نام سے ایران پر بھرپور حملے کیے۔ نطنز، اصفہان، اور خوزستان میں واقع ایران کی نیوکلیئر اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں سائنسدان اور فوجی افسران شہید ہوئے۔ اسرائیلی میڈیا اسے اپنی فتح کا آغاز کہتا رہا۔
لیکن اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ چند ہی گھنٹوں بعد، اسی دن رات کو، ایران نے ایک ایسا جواب دیا جس نے نہ صرف اسرائیل بلکہ دنیا بھر کو حیران کر دیا۔ ایران نے 300 سے زائد بیلسٹک میزائل اور 150 خودکش ڈرونز براہِ راست اسرائیلی سرزمین پر داغے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایران نے کھلے عام اسرائیل پر اتنے بڑے پیمانے پر براہِ راست حملہ کیا۔
اسرائیل کا فخریہ دفاعی نظام، جسے دنیا آئرن ڈوم کے نام سے جانتی ہے، اس رات تقریباً ناکام ہو گیا۔ صرف 60 فیصد میزائلوں کو روکا جا سکا۔ باقی اسرائیل کے فوجی اڈوں، شہروں اور حساس مقامات پر لگے۔ درجنوں افراد زخمی ہوئے، اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، اور تل ابیب کی اسٹاک مارکیٹ لرز گئی۔
ایران کا حملہ محض طاقت کا اظہار نہیں تھا، بلکہ اس میں غیر معمولی حکمت عملی شامل تھی۔ میزائلوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اسرائیل کا دفاعی نظام اوورلوڈ ہو گیا۔ میزائل اور ڈرونز کو ایک ساتھ فائر کیا گیا تاکہ اسرائیلی ریڈار اور نظام کنفیوز ہو جائیں۔ اور سب سے بڑھ کر، وہ میزائل جدید ٹیکنالوجی سے لیس تھے، جو تیز رفتار تھے، کم اونچائی پر پرواز کرتے تھے، اور ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر امریکہ نے بھی جنگ میں قدم رکھ دیا۔ اس نے ایران کی تین نیوکلیئر تنصیبات — نطنز، فردو اور اراک — پر فضائی حملے کیے۔ لیکن یہ کارروائی نہ صرف ایران کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ امریکہ کے لیے سیاسی تباہی کا باعث بن گئی۔ دنیا بھر میں ان حملوں کی شدید مذمت کی گئی۔ یورپی یونین، اقوام متحدہ، ترکیہ، پاکستان، برازیل اور دیگر کئی ممالک نے اسے اشتعال انگیز اور غیر ضروری قرار دیا۔ خود امریکہ میں عوام نے سوال اٹھایا کہ کیا اسرائیل کی خاطر تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لینا درست ہے؟ “یہ ہماری جنگ نہیں” جیسے نعرے سڑکوں پر گونجنے لگے۔
ایران نے امریکہ کی اس مداخلت کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیا اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مقدمہ اٹھایا۔ اس کا بیانیہ دنیا میں سنا گیا، سمجھا گیا، اور کئی ممالک نے اس کے موقف کی تائید کی۔ چین، روس، پاکستان، حتیٰ کہ کچھ خلیجی ریاستوں نے بھی ایران سے نرم رویہ اختیار کیا۔ یورپ میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے بڑھے، اور اقوام متحدہ میں ایران کی بات کو قانونی حیثیت دی گئی۔
جنگ کے اس مرحلے پر اسرائیل تنہا ہوتا چلا گیا۔ وہ ملک، جس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اردن اور خلیجی بادشاہتیں کھڑی تھیں، خود جنگ بندی کی اپیل کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے حملہ ضرور کیا تھا، مگر ایران کو نہ روک سکا۔ وہ صرف میدانِ جنگ میں نہیں ہارا، بلکہ سفارتی، بیانیاتی اور نفسیاتی محاذ پر بھی پسپا ہوا۔
اس دوران ایک اور کوشش خاموشی سے ناکام ہوئی۔ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران میں رجیم چینج کی ایک خفیہ مہم چلائی گئی — سائبر حملوں، میڈیا پروپیگنڈے اور داخلی فسادات کو ہوا دینے کی صورت میں۔ لیکن ایرانی عوام نے ایک مرتبہ پھر اتحاد اور ریاستی اداروں پر اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ اس مہم کو بھی عالمی برادری نے غیر جمہوری اور مداخلت پسندانہ سمجھا۔
13 جون 2025 کی جنگ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ صرف فوجی طاقت اور بیرونی حمایت کسی کو فاتح نہیں بناتیں۔ اصل کامیابی اُس قوم کو ملتی ہے جو صبر، حکمت اور درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ایران نے یہی کیا۔
دنیا نے دیکھ لیا کہ کون ڈٹا رہا اور کون جھک گیا۔
طاقت وہ نہیں جو گرجے، طاقت وہ ہے جو ٹھہر جائے — اور وقت پر وار کرے۔