یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ لوگ پل بھر میں کیسے اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں؟ کیسے سوشل میڈیا ٹرینڈ میں مُبتلا کر کے اُنھیں اپنے مقصد کے لیے اُلّو بنایا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال ٹیسلا اور سپیس ایکس کے مالک ایلون ماسک کی ہے۔ جس نے حالیہ الیکشن میں نہ صرف ٹرمپ کی مکمل حمایت کی بلکہ اس نے ایکس سمیت سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے حق میں ایک زبردست مہم کی، جس کے نتائج سامنے ہیں۔ شنید ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ ہوں گے۔ ماسک جو کہ دنیا کا امیر ترین شخص ہے، تقریباً 425 ارب ڈالرز سے زائد کا مالک ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو مستقبل میں ٹرمپ کابینہ کسی بھی ملک کے انتخابی نتائج پر بذریعہ سوشل میڈیا مزید اثر انداز ہو سکے گی۔
مملکتِ خداداد پاکستان جب سے معرضِ وجود میں آیا تو کچھ ہی عرصے بعد یہ عوامی جہدوجہد سے ترقی کی راہ پر جانب گامزن ہو گیا۔ کہتے ہیں، قابل افراد کے ہاتھوں میں جب قوم کی تقدیر سونپی جائے تو پھر ملک راتوں رات ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جاتا ہے۔ ستر فی صد زرعی رقبے پر مشتمل عوام کے پاس اگرچہ کئی بنیادی سہولیات کی کمی تھی لیکن لوگ جفاکش اور ملن سار ہونے کے باعث لوٹ مار اور چور ڈاکیتی کم تھی۔ ادارے، کارخانے اور کاروبار بہتر تھے۔ کہیں سفری پابندیاں نہ تھی حتی کہ یورپی ویزوں کی لاٹریاں نکلتی اور کئی لوگ یہاں سے ہجرت پر آمادہ نہ تھے۔ پی آئی اے کی دنیا مثالیں دیتی اور کارخانے خوب شب و روز اپنے عروج پر تھے۔ فرقہ واریت، سیاسی انتشار اور صوبائی عصبیت کی عوام کو دور دور تک خبر نہ تھی۔ پردے کا زبردست انتظام ہوتا۔ جمعہ اور عیدین کو مساجد کھچا کھچ بھری ہوئی ہوتیں۔ عوام کے پاس کئی بنیادی وسائل نہ ہونے کے باوجود وہ قدرتی طور پر خوش حال تھے۔ شاید اس کے پیچھے ایک وجہ ہریالی تھی۔ کسی بھی گاؤں میں جگہ جگہ درختوں کے جھنڈ، زرعی رقبہ پر کاشت اور ہر گھر میں درختوں کی بہتات تھی۔ جیسے ہی کثیر لوگ یورپی ممالک جانا شروع ہوئے اور کچھ عرصہ بعد انٹرنیٹ عام ہونے لگا، اب آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے وہ اُکتانے لگے۔ محبتوں کی جگہ نفرتوں کی شمع روشن ہونے لگی۔ وہ لوگ جو کبھی محنت کے بل بوتے پر زندگی جینے کے آرزو مند تھے، اب رات دیر تک جاگ کر انٹرنیٹ پر بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جب وہ دیر سے جاگتے تو اب وہ محنت سے جی چرانے لگے۔ فصلیں اُگانے کی بجائے زمینیں ٹھیکے پر دی جانے لگی۔ اب لوگ کام سے جی چرانے لگے۔ مال اموال بیچ کر بیرون ملک منتقل ہونے لگے۔ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہ تھا کہ ہمارا ملک کس نہج سے گزر رہا ہے۔ یہ بے روزگار لوگ یورپی پیسے سے امیر کبیر تو ہو گئے لیکن پیسوں کی یلغار نے ان سے رشتوں کا تقدس چھین کر رکھ دیا۔ وہ والدین کو بوجھ سمجھ کر اولڈ ہاؤس یا اپنے ملک بھیجنے پر مجبور ہو گئے۔ کچھ کو جب اپنی نسلوں کے ایمان کے لالے پڑے تو وہ ان کے دین و ایمان کو بچانے کے لیے پاکستان سے شادیاں کروانے لگے۔ اب کیا تھا ساری عمر کی جمع پونجی اکھٹی کر کے سامان باندھا اور پاکستان تشریف لے آئے۔ بچوں کو پاکستان میں شادیاں کروائیں۔ ایک ایک شادی پہ دس دس کروڑ نمائش، فیشن رسومات اور کھانوں پر لگا دیا۔ اس کا مزید نقصان یہ ہوا کہ یہاں کے باقی ماندہ لوگ بھی ان رسومات کی بھینٹ چڑھنے لگے۔ اس طرح وہ بے بس ہو کر رہ گئے۔ یہ جو ہم ہر وقت ریاستتی تشدد کا رونا روتے رہتے ہیں نا، کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ ہم زندگی یورپ کی اور موت مدینے کی چاہتے ہیں۔ ہم مہنگی سبزیاں، پھل اور اناج کا رونا روتے ہیں تو اکثر چیزیں ہم نے خود نہ اُگا کر مہنگی کی ہیں۔ ہم نے زرعی رقبے کو چند سکوں کی خاطر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے سپرد کر کے اور پختہ مکانات سے سجا کر بنجر کر دیں۔ ہم نے کارخانوں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون نہ کر کے اولادوں کو بیرون ملک پڑھنے اور روزگار کے لیے بھیج کر اپنے آپ سے دشمنی کی۔ ضرورت کی حد تک یہ سب باتیں ٹھیک تھی مگر جب ہم نے اس کو مجبوری بنا دیا تو محتاج بن کر بلکہ بھکاری بن کر رہ گئے۔ اپنے ملک کی اشیا اور اداروں کی قدر کرو، دنیا تمھاری قدر کرے گی۔ پیوستہ رہنا ہے، شجر سے اور امید رکھنا ہے۔ ہر شب غم کی سحر ضرور ہوتی ہے۔ جہاں بھی رہے ملک و قوم اور مذہب کے ساتھ وفادار رہیے۔