مسلم لیگ کے پرچم تلے جس ہستی نے مسلمانان ہند کو جمع کیا وہ ناتواں جسم و جاں کا پیکر بیرسٹر محمد علی جناح تھے ۔ جن کا عزم و ہمت اور ارادے کے سامنے ہمالہ بھی ڈھیر تھا ۔ سارے کے سارے مسلمان قائد اعظم کی راہبری میں منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہو گئے قائد اعظم کی عظیم و بلند مرتبت شخصیت نہ صرف سیاسی ماحول میں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھی جانے لگی بلکہ اردو کے بیشتر شاعروں نے انہیں اپنے فکر و فن کا مرکز و محور بنا لیا ، قائد اعظم کی زندگی قومی منظومات کا عنوان بنائی گئی جن میں شعراء نے دلی عقیدت اور احترام کا اظہار کیا مسلم قوم کے دلوں میں قائد اعظم کے لیے جو بے کراں جذبہ الفت اجاگر ہوا تھا اسے شعر کے قالب میں ڈھال کر فنکاروں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا اسی نوع کی سب سے پہلی نظم علامہ سید سلیمان ندوی کی ہے ، وہ ایک معروف ادیب کی حیثیت سے تو خاصے مشہور ہیں ، مگر بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ شاعر بھی تھے اور ان کے کلام کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے علامہ نے 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں بنفس نفیس شرکت کی تھی وہ قائد اعظم کی باوقار شخصیت ، ان کی قائدانہ صلاحیت اور قوت تقریر سے بے حد متاثر ہوئے تھے برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی زبوں حالی کے ازالے کے لیے قائد اعظم جو تحریک لے کر اٹھے تھے اس سے مولانا خاصے پرامید تھے، اور انہوں نے اپنی نظم میں اس کا برملا اعلان کیا تھا،
پرمریض قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید
ڈاکٹر اس کا اگر مسٹر علی جینا رہا
مولانا ظفر علی خان قومی شاعری کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود ان کا اہم مقصد رہا ہے مسلم قوم کو کانگرس کے ہر اوچھے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ برابر سینہ سپر رہے ہیں ، اسی جذبے کے تحت وہ مسلم لیگ کے قائد رہنما محمد علی جناح سے یوں خطاب کرتے ہیں
ملت کا تقاضا ہے کہ اے قائد اعظم
اسلامیوں کی شان میں کچھ چاند لگا اور
ہے سست عناں قافلہ اور دور ھے منزل
اس قافلے کی گرمی ء رفتار بڑھا اور
مغرب کے حریفوں کو جو دینی ہے تجھے زک
مشرق کی سیاست کا کوئی دام بچھا اور
اس زمانے میں قائد اعظم پر جو نظمیں لکھی گئی ان میں میاں بشیر احمد کی ملت کا پاسباں بے حد مقبول و معروف ہوئی ،
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
صد شکر پھر ہے گرم سفر اپنا کارواں
اور میر کارواں ہے محمد علی جناح
وزارت تعلیم ، حکومت پاکستان ۔ اسلام آباد نے قومی کمیٹی برائے صد سالہ تقریبات پیدائش قائد اعظم محمد علی جناح 1976 میں منتخب منظومات ناصر زیدی مرحوم اور محمود الرحمن نے ترتیب دی تھیں اور ملک کے نامور شعراء نے قائد کے حضور ہدیہ ء عقیدت منظوم پیش کیا تھا ۔ ان میں آرزو لکھنوی ، آفاق صدیقی ، آل رضا ، اثر صہبائی ، احسان اکبر ، احسان دانش ، احمد تنویر ، احمد ندیم قاسمی ، اخترعادل ، اختر ہوشیار پوری ، ادیب سہارن پوری، اسد ملتانی، حفیظ جالندھری ، حسن عسکری کاظمی، جمیل الدین عالی، رئیس امروہوی، سید سلیمان ندوی، ظہیر کاشمیری، مولانا ظفر علی خان، کوثر نیازی، یوسف ظفر اور ضمیر جعفری کے علاوہ ناصر زیدی کا منظوم کلام شامل ہے۔
قائد اعظم صحیح معنوں میں اسلامی دنیا کے ایک عظیم فرد تھے انہوں نے ملت اسلامیہ کے فروغ و ارتقا کے لیے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں انہیں رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا ، ان کی سیرت ایک سچے اور مخلص مسلمان کی سیرت تھی، اس میں نہ ریا کا پہلو تھا اور نہ کذب و افترا کی آویزش ، وہ اسلام کے وفادار خادم تھے انہوں نے برصغیر ہندو پاک کے مسلمانوں کی عظمت نو کی سر بلندی کے لیئے نہ صرف خواب دیکھے بلکہ عملی طور پر قدم اٹھا کر اسے شرمندہ تعبیر بھی کر دیا، اردو کے ہر دل عزیز شاعر احمد ندیم قاسمی نے اپنی نظم قائد دہر میں محبوب رہنما کے انہی اوصاف کو اجاگر کیا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
تو نے اسلام کا بول بالا کیا
ہر قیامت کو ہنس ہنس کے ٹالا کیا
تو نے ان ظلمتوں میں اجالا کیا
جن کو صدیوں سے افرنگ نے ڈھالا کیا
بحر ہستی میں اسلام کی لہر تھا
قائد ہند کیا قائد دہر تھا
اثر صہبائی نے قائد کے مقصد زندگی ، ان کے لائحہ عمل اور نظریہء حیات کا بغور مطالعہ کیا تھا وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسی عظیم و بلند مرتبت شخصیت اور ارفع و اعلیٰ ، کردار ، انسانیت کا سچا بہی خواہ اور ہمدرد ہو سکتا ہے ، اس کی کوششوں کی بدولت انسانی تاریخ کا دھارا مڑ جاتا ہے ۔ اسی کے جلو میں نئے دور کا آغاز ہوتا ہے چنانچہ اثر صہبائی دعا کرتے ہیں یا اللہ قائد اعظم جیسے عظیم انسان اور بھی مرحمت کرئے تاکہ قوم ان کی راہبری میں صحت و سلامتی کے ساتھ منزل مراد کی جانب رواں دواں رہے ،
دیانت، شرافت ، محبت کے پیکر
صداقت عزیمت ، شجاعت کے پیکر
الہی ہمیں ایسے انسان عطا کر
نگاہیں نہ دھندلائیں دودہوس سے
دلوں کے چمن پاک ہوں خار و خس سے
الہی ہمیں ایسے انسان عطا کر